جیت خوف کے سائے میں پروان نہیں چڑھتی!

2 1,054

شائقین کے امیدوں کے چراغ کل شام کالی آندھی نے بجھا دیے، جس پر بہت واویلا مچایا جارہا ہے ،بہت چیخ و پکار ہے ۔قومی ٹیم کو برا بھلا کہنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور انفرادی طور پر بھی کھلاڑیوں کے لتے لیے جارہے ہیں لیکن شکست کے اسباب پر کوئی بات نہیں کررہا ۔ اس ٹیم کی سلیکشن کرنے والے چپکے سے کھسک چکے ہیں اور اب نئی سلیکشن کمیٹی ہے اور نئی امیدیں!

کپتان محمد حفیظ پورے ایونٹ کے دوران دباؤ کا شکار دکھائی دیے (تصویر: AFP)
کپتان محمد حفیظ پورے ایونٹ کے دوران دباؤ کا شکار دکھائی دیے (تصویر: AFP)

ٹی 20 ایسا فارمیٹ ہے جس میں صلاحیت کےساتھ ساتھ دلیری کی بھی ضرورت ہےاور میدان میں شیروں کی طرح لڑنے والی ٹیمیں ہی جیتتی ہیں اور بھیگی بلی بن جانے والوں کی طرف جیت مسکرا کر بھی نہیں دیکھتی۔ پاکستانی ٹیم اس پورے ٹورنامنٹ میں خوف کا لبادہ نہیں اتار سکی۔بھارت کےخلاف پہلے میچ میں بھی یہی ہوا تھا کہ روایتی حریف کےخلاف ہارنے کا خوف گرین شرٹس کے اعصاب پر سوار تھا۔آسٹریلیا کےخلاف عمر اکمل کی اننگز نے کام آسان کردیا ورنہ اننگز کا اّغاز اور باؤلرز کی کارکردگی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور ویسٹ انڈیز کےخلاف بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملی جب میچ کے آغاز سے قبل پاکستانی کھلاڑی حد سے زیادہ نروس دکھائی دیے اور کہیں سے بھی ایسا محسوس نہیں ہورہا تھا کہ یہ ٹیم 'مارو یا مرجاؤ' والی صورتحال کے میچ میں شریک ہونے جارہی ہے۔میں ذاتی طور پر معین خان سے بڑا فائٹر کسی پاکستانی کھلاڑی کو نہیں سمجھتا لیکن معین خان اس ٹیم میں وہ روح نہ پھونک سکے جو پاکستانی ٹیم کو مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت بخشتی۔

خوف کا یہ عنصر صرف قومی ٹیم تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سلیکشن کمیٹیاں بھی اسی خوف کا شکار ہیں جو ہار کے ڈر سے باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کی بجائے تجربہ کار کھلاڑیوں پر بھروسہ کرتی ہیں۔ دو سال پہلے کھیلے گئے میگا ایونٹ میں بھی عمران نذیر اور عبدالرزاق کو گھر سے بلا کر اسکواڈ میں شامل کرلیا تھا تاکہ گرین شرٹس میں تجربے کا تڑکا لگایا جائے مگر سیمی فائنل جیسے بڑے میچ میں پاکستانی ٹیم کا جو حال ہوا وہ آج بھی شائقین کو یاد ہے۔اس مرتبہ بھی کامران اکمل اور شعیب ملک کو صرف تجربے کی بنیاد پر واپسی کا عندیہ دیا گیا مگر ان کھلاڑیوں کا تجربہ پاکستانی ٹیم کے کسی کام نہ آسکا۔یہی صورتحال عمر گل کےساتھ بھی ہےجو اب اپنے تجربے کی بنیاد پر ہی کھیل رہے ہیں اور عمر گل کی ہی وجہ سے ٹیم مینجمنٹ اور کپتان کے درمیان اختلافات ہوئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ معین خان فاسٹ باؤلر عمر گل کو اَن فٹ قرار دے کر متبادل کے طور پر انور علی کو بلانے کے خواہاں تھے مگر محمد حفیظ نے ایسا نہ ہونے دیا بلکہ وہ اپنے قریبی دوست عمر گل کو مسلسل کھلاتے رہے اور جنید خان جیسا باؤلر باہر بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔

احمد شہزاد نے ایک سنچری اسکور کرکے ڈینگیں مارنا شروع کردیں، عمر اکمل بھی ایک میچ میں پرفارم کرکے رنز بنانا بھول گئے۔آفریدی کا بلا خاموش رہااور کپتان محمد حفیظ پورے ایونٹ کے دوران دباؤکا شدید شکار دکھائی دیے۔

دوسال پہلے ورلڈ ٹی 20 کی شکست کے بعد پاکستانی ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کرنے کا رواج پروان چڑھا مگر اگلا ایونٹ آتے ہی ان نوجوانوں کو باہر بٹھا دیا گیا۔اگر نئی سلیکشن کمیٹی بھی اسی ڈگر پر چلی تو شکستوں کی یہ روایت ختم نہ ہوسکے گی۔ ویسٹ انڈیز کےخلاف شکست کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ بڑے ناموں اور تجربے سے بڑھ کر حالیہ فارم، ذمہ داری کا احساس اور دلیری جیسے عناصر زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

پاکستان کی باؤلنگ لائن اَپ میں پچاس سے زائد وکٹیں لینے والے تین باؤلرز شامل تھے۔ بیٹنگ لائن میں دو بیٹسمین اس فارمیٹ میں ہزار سے زائد رنز اسکور کرچکے ہیں۔ ایک بیٹسمین پچھلے میچ میں سنچری اسکور کرنے کے بعد بھرپور فارم میں تھا۔ اس فارمیٹ کا بہترین آل راؤنڈر بھی پاکستانی ٹیم میں شامل تھا۔ مختصر ترین فارمیٹ میں سب سے زیادہ شکار کرنے والا وکٹ کیپر بھی پاکستانی ٹیم کا حصہ تھا مگر اس کے باوجود عبرتناک شکست۔۔۔؟ ورلڈ ٹی 20 میں ملنے والی دونوں شکستیں خوف اور دباؤ کا نتیجہ ہیں۔

اس ٹورنامنٹ کے پچھلے چاروں ایڈیشنز میں پاکستانی ٹیم نے سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ہے مگر جس ایک فائنل اور دو سیمی فائنلز میں پاکستان کو شکست ہوئی ہے ان میں گرین شرٹس شدید دباؤ کا شکار تھی، جس کے مایہ ناز بیٹسمین اسٹروکس کھیلنا بھول گئے اور ٹاپ کلاس اسپنرز کی گیندوں نے گھومنا ہی چھوڑ دیا۔ پاکستانی ٹیم نے اہم میچ میں ایک مرتبہ پھر دباؤ میں آکر شکست کو گلے لگانے کی روایت برقرار رکھی ہے اور اگر قومی کھلاڑیوں کے سروں سے خوف کا خول نہ اتارا گیا تو شکستوں کا یہ تسلسل گرین شرٹس کی عادت بن جائے گا!