پاکستان کو عسکری طرز پر ورلڈ کپ 2015ء کی تیاری کرنی چاہیے: وسیم اکرم

6 1,015

پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا ہے کہ اگر پاکستان عالمی کپ 2015ء میں کچھ کرنا چاہتا ہے تو اسے حالیہ ناکامیوں کو بھلا کر ہنگامی بنیادوں پر عسکری طرز پر تیاریاں کرنی چاہئیں۔

پاکستان کو فیلڈنگ میں جان مارنی ہوگی، جونٹی رہوڈز مختصر عرصے کے لیے پاکستانی ٹیم کی تربیت کو تیار ہوں: وسیم اکرم (تصویر: Getty Images)
پاکستان کو فیلڈنگ میں جان مارنی ہوگی، جونٹی رہوڈز مختصر عرصے کے لیے پاکستانی ٹیم کی تربیت کو تیار ہوں: وسیم اکرم (تصویر: Getty Images)

فرانس کے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے سابق کپتان نے کہا کہ اگر قومی ٹیم اگلے عالمی کپ میں کچھ کر دکھانا چاہتی ہے تو اسے اپنی فیلڈنگ پر بھرپور توجہ دینا ہوگی اور اسے بہتر بنانا ہوگا۔ ساتھ ہی وسیم نے یہ بھی بتایا کہ جنوبی افریقہ کے مایہ ناز فیلڈر اور کوچ جونٹی رہوڈز مختصر عرصے کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کی تربیت کے لیے تیار ہیں۔

1996ء اور 1999ء کے عالمی کپ ٹورنامنٹس میں پاکستان کی قیادت کرنے والے وسیم اکرم نے کہا کہ انہیں عالمی کپ 2014ء کے حوالے سے سخت تشویش ہے کیونکہ آسٹریلیا کے میدان، موسم اور حالات بالکل الگ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اس کے لیے سخت تیاری کرنا ہوگی اور میری رائے میں اس مقصد کے لیے عسکری طرز کا ایک کیمپ کسی پہاڑی علاقے میں لگانا چاہیے تاکہ کھلاڑی ان حالات کے زیادہ سے زیادہ عادی ہو سکیں۔

وسیم اکرم نے کہا کہ اکتوبر میں آسٹریلیا کے خلاف 'ہوم سیریز' تک پاکستان کے لیے ایک طویل وقفہ موجود ہے اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ زیادہ بہتر تو یہی ہوگا کہ پاکستان عالمی کپ سے پہلے آسٹریلیا کا دورہ کرلے تاکہ کھلاڑی حالات سے مطابقت پیدا کرلیں جیسا کہ ہم عالمی کپ 1992ء سے تین ہفتے قبل ہی آسٹریلیا پہنچ گئے اوراسی کا فائدہ ہمیں بعد میں نظر آیا۔

1992ء کے عالمی کپ فاتح دستے کے رکن اور اس ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے میدانوں سے کھلاڑیوں کا ذہنی طور پر ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے اور اگر وہ ان میدانوں سے مانوس نہیں ہوپائے تو خطرہ ہے کہ سنگین انجریز کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی حالیہ کارکردگی اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں وسیم اکرم نے کہا کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ انگلستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں بھی گروپ مرحلے میں ہی باہر ہوئیں، لیکن وہاں ذرائع ابلاغ اور عوام کی جانب سے کھلاڑیوں پر ویسا دباؤ نہیں ڈالا گیا جیسا کہ پاکستان میں ہوا، جس کے نتیجے میں ٹیم کے کپتان ہی کو استعفیٰ دینا پڑا۔