معین خان...ہر فن مولا؟؟

2 1,055

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے سب سے اہم عہدے چیئرمین کے لیے جو "میوزیکل چیئر" کا کھیل کھیلا گیا، اس نے پاکستان کرکٹ کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود چیئرمین نجم سیٹھی ’’سب اچھا ‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ان چند ہفتوں کے دوران پاکستان پہلی بار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل تک نہیں پہنچا، کپتان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا، کوچنگ اسٹاف برطرف ہوا اور ممکنہ چیف سلیکٹر عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی چھوڑ گئے۔ پاکستان کو اس غیر یقینی کا سامنا اس وقت ہے جب عالمی کپ کے انعقاد میں صرف دس ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔

معین خان کو اپنی صلاحیتوں پر یقین ہے اور بدقسمتی سے نجم سیٹھی بھی انہیں ہرفن مولا سمجھتے ہیں (تصویر: AFP)
معین خان کو اپنی صلاحیتوں پر یقین ہے اور بدقسمتی سے نجم سیٹھی بھی انہیں ہرفن مولا سمجھتے ہیں (تصویر: AFP)

عالمی کپ کے لیے پاکستان کا کوچ کون ہوگا؟ اس نازک ترین مرحلے پر چیف سلیکٹر کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر ہوگی؟ ان اہم سوالوں کے جوابات دینے کے بعد بورڈ کے سربراہ قوم کو سہانے سپنے دکھانے میں مصروف ہیں۔ اگلے آٹھ برسوں کی منصوبہ بندی اور اس کے نتیجے میں اربوں روپے کمانے کی باتیں کی جا رہیں ہیں، لیکن صرف دس ماہ بعد کیا ہوگا، اس کی کوئی فکر نہیں۔ ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کے درمیان ہونے والی کرسی کی جنگ میں چند سابق کھلاڑیوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا، کچھ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور موخر الذکر حلقے میں سب سے نمایاں سابق کپتان معین خان ہیں جو نجم سیٹھی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے پاکستان کرکٹ کی اہم ترین شخصیت بن گئے ہیں۔

نجم سیٹھی نے سب سے پہلے معین خان کو چیف سلیکٹر کا عہدہ پیش کیا تھا مگر عدالتی حکم نامے کی وجہ سے معین مجلس انتخاب کے سربراہ بنتے بنتے رہ گئے۔ چیف سلیکٹر نہ بن سکے تو نجم سیٹھی نے اس عہدے کے متبادل کے طور پر سابق وکٹ کیپر کو قومی ٹیم کا مینیجر بنا دیا۔ اب معین نے مینیجر کی حیثیت سے کوچ کے کام میں دخل اندازی شروع کردی جو یقینی طور پر ڈیو واٹمور کو پسند نہیں آیا مگر سابق کھلاڑی کی طاقت دیکھ کر انہیں بھی چپ رہنا پڑا اور وہ خاموشی کے ساتھ پاکستان میں اپنے دن پورے کرنے لگے۔

ڈیو واٹمور نے اپنا دو سالہ معاہدہ پورا کیا تو قومی ٹیم کے مینیجر معین خان نے ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے درخواست دے دی۔ معین کے پاس بین الاقوامی ٹیم کی کوچنگ کا تو کوئی تجربہ نہیں تھا، البتہ غیر قانونی لیگ 'آئی سی ایل' میں لاہور بادشاہ کی کوچنگ ضرور ان کے کریڈٹ پر تھی۔ وہی آئی سی ایل جس کا راستہ معین خان نے کئی ایسے نوجوان کھلاڑیوں کو دکھایا جن کا مستقبل بعد میں پاکستان کرکٹ میں تاریک ہوگیا مگر اس کے باوجود کوچ فائنڈنگ کمیٹی نے قومی ٹیم کی باگ ڈور معین خان کے ہاتھ میں تھما دی۔

اب ہیڈ کوچ کا عہدہ ملنے کے بعد معین خان بہت پرعزم تھے کہ انہیں جتنا بھی وقت دیا گیا ہے، وہ کوشش کریں گے کہ پاکستانی ٹیم جیت کی راہ پر گامزن ہوجائے مگر وہ غیر ملکی کوچ ڈیو واٹمور کی طرح نہ پاکستان کو ایشیا کپ جتوا سکے اور نہ ہی پاکستان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل میں پہنچا۔ یعنی وہ دو کارنامے انجام دینے میں بھی ناکام رہے جو واٹمور کی زیر قیادت پاکستان نے دیے تھے، یعنی ایشیائی چیمپئن بننا اور دو سال قبل ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا سیمی فائنل کھیلنا۔

ان دونوں بڑی ناکامیوں کے بعد بطور کوچ معین خان کا مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے لیکن جیسے ہی راشد لطیف نے چیف سلیکٹر بننے سے انکار کیا، معین خان نے اس عہدے کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیے ہیں اور قومی امکان ہے کہ نجم سیٹھی معین خان پر عنایات کا سلسلہ دراز کریں گے۔

کھلاڑی کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد معین خان کسی عہدے پر پاکستان کرکٹ کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئے مگر انہیں اپنی صلاحیتوں پر یقین ہے اور بدقسمتی سے نجم سیٹھی کو بھی سابق وکٹ کیپر کے ہرفن مولا ہونے پر یقین ہے۔