[آج کا دن] ویوین رچرڈز کی طوفانی بیٹنگ اور تیز ترین ٹیسٹ سنچری

10 1,059

تاریخ کے عظیم ترین آل راؤنڈرز میں شمار ہونے والے عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ اپنے عہد کا کون سا بلے بازہے جسے آپ عظیم سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے ایک لمحے توقف کیے بغیر کہا "ویوین رچرڈز"! اور آج کا دن یعنی 15 اپریل عمران خان کی اسی بات کو ثابت کرتا ہے جب ویوین رچرڈز نے تیز ترین ٹیسٹ سنچری کا ایسا ریکارڈ بنایا جو آج 28 سال بعد بھی جوں کا توں موجود ہے۔

ٹی ٹوئنٹی جیسی ڈسپوزیبل کرکٹ کی ابتداء سے 19 سال قبل اپنے آبائی علاقے سینٹ جانز میں انگلستان کے خلاف پانچویں ٹیسٹ کی دوسری اننگز کھیلنے کے لیے جب ویو رچرڈز میدان میں اترے تو بحیثیت کپتان اور بلے باز بھی ان کے دماغ پر رتی برابر بھی بوجھ نہیں تھا۔ ابتدائی چاروں ٹیسٹ مقابلے جیتنے اور آخری ٹیسٹ میں 264 رنز کی بھاری بھرکم برتری ویسٹ انڈیز کے پاس تھی۔ تب ویوین روایتی انداز میں آہستگی سے قدم بڑھاتے اور چیونگم چباتے ہوئے کریز پر آئے اور اس کے بعد بے رحمی سے باؤلرز پر ٹوٹ پڑے۔ ابتدائی چاروں ٹیسٹ مقابلوں میں شکست کے بعد انگلستان کی بچی کچھی ہمت بھی ٹوٹ گئی،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ویو نے انگلستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔ ابھی ڈیڑھ سال قبل ہی تو انگلستان اپنے ہی ملک میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں پانچ-صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوا تھا، اور اب ایک اور'بلیک واش' اس کے سامنے تھا۔ یعنی بقول شاعر "ایک اور دریا کا سامنا"!

ویوین رچرڈز نے اس طوفانی اننگز کے دوران صرف 56 گیندوں پر اپنی سنچری مکمل کی جو آج بھی سب سے کم گیندوں پر تہرے ہندسے کی اننگز کا عالمی ریکارڈ ہے۔ اس اننگز میں 7 چھکے اور اتنے ہی چوکے شامل تھے۔ کئی بلے بازوں نے اس ریکارڈ کو توڑنے کی کوشش کی لیکن کوئی اس ہدف تک نہیں پہنچ پایا یہاں تک کہ دسمبر 2006ء میں انگلستان ہی کے خلاف پرتھ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ بہت قریب پہنچے لیکن صرف ایک گیند کے فاصلے سے محروم رہ گئے۔

اس اننگز کے بارے میں خود رچرڈز کا کہنا ہے کہ "وہ ایک ایسا دن تھا جب میری ہر ہٹ میدان سے باہر جارہی تھی، یہاں تک کہ جو شاٹ بلے پر نہیں آ رہے تھے، وہ بھی۔ گو کہ میں نے آؤٹ ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے رکھی تھی لیکن وہ خوش قسمتی کا دن تھا اور شائقین کو یادگار لمحات میسر آئے بلکہ وہ سینٹ جانز میں یوم جشن تھا۔" کرکٹ کی بائبل کہلانے والے جریدے 'وزڈن' نے لکھا تھا کہ انگلستان کے چھ کھلاڑی ہمہ وقت، اور بسا اوقات تو 9 کھلاڑی تک، باؤنڈری لائن پر موجود رہے لیکن جیسی بھی گیند آئی، باؤلرز نے رچرڈز کے ہاتھوں سزا پائی۔

رچرڈز 58 گیندوں پر 110 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے، ویسٹ انڈیز نے صرف 43 اوورز میں 246 رنز لوٹے اور پہلی اننگز کی برتری ملا کر انگلستان کو مقابلہ جیتنے اور کلین سویپ کی ہزیمت سے بچنے کے لیے 411 رنز کا ہدف دیا جو انگلش بلے بازوں کے لیے کافی سے زیادہ تھا۔ گراہم گوچ کی نصف سنچری کے علاوہ کوئی ویسٹ انڈیز کی باؤلنگ کے سامنے نہ ٹک پایا اور پوری ٹیم 170 رنز پر ڈھیر ہوئی ۔ یوں 240 رنز کی فتح کے ساتھ ویسٹ انڈیز نے ایک اور کلین سویپ مکمل کیا اور بلاشبہ یہ ویسٹ انڈین کرکٹ کا نقطہ عروج تھا۔