غرب الہند میں پاکستان کی پہلی جیت

4 1,067

بھارت، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف گھریلو میدانوں پر کامیابیاں سمیٹنے کے بعد اب پاکستان کو بیرون ملک امتحان درپیش تھا۔ 1958ء کا دورۂ ویسٹ انڈیز۔ پاکستان اس وقت کے تمام ٹیسٹ ممالک کے خلاف کھیل چکا تھا، ماسوائے ویسٹ انڈیز کے۔ نیشنل اسٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف یادگار کامیابی کے تقریباً ایک سال بعد عبد الحفیظ کاردار کی قیادت میں پاکستان کا دستہ پانچ ٹیسٹ مقابلے کے لیے جزائر غرب الہند روانہ ہوا۔

نسیم الغنی سب سے کم عمری میں اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دینے والے باؤلر بنے۔ اس وقت ان کی عمر محض 16 سال اور 303 دن تھی (فائل فوٹو)
نسیم الغنی سب سے کم عمری میں اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دینے والے باؤلر بنے۔ اس وقت ان کی عمر محض 16 سال اور 303 دن تھی (فائل فوٹو)

28 آزاد و نیم آزاد ریاستوں پر مشتمل یہ جزائر مشترکہ طور پر ویسٹ انڈیز کے نام سے دنیائے کرکٹ میں کھیلتے ہیں اور اپنے عروج کے زمانے میں یہ ٹیم پاکستان میں'کالی آندھی' کے نام سے مشہور تھی۔ انہی کی سرزمین پر پاکستانی دستے نے 1958ء کے اوائل میں پہلی بار قدم رکھا اور وہ کیا ہی یادگار سیریز تھی۔ گو کہ ویسٹ انڈیز تین-ایک سے جیتنے میں کامیاب رہا لیکن جب بھی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ لکھی جائے گی، کوئی مؤرخ پاک-ویسٹ انڈیز 1958ء کی اس سیریز کا ذکر کیے بغیر آگے نہیں بڑھے گا۔ اس سیریز میں 'تین ڈبلیوز' کے دو اراکین ایورٹن ویکس اور کلائیڈ والکوٹ اپنے شاندار کیریئر کے اختتامی مراحل پر تھے جبکہ یہ چند عظیم کھلاڑیوں کے روشن مستقبل کا نقطہ آغاز بھی تھی جیسا کہ کونارڈ ہنٹے، روہن کنہائی، گیری سوبرز اور لانس گبز۔

اس سیریز کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ بارباڈوس میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ ہی کافی ہے۔ پاکستان حنیف محمد کی وکٹ پر گزارے گئے وقت کے لحاظ سے کرکٹ تاریخ کی طویل ترین اننگز کی بدولت مقابلہ بچانے میں کامیاب ہوا۔ پہلی اننگز میں فالو آن کا شکار بننے کے بعد پاکستان نے حنیف محمد کی 970 منٹوں پر محیط اننگز میں بنائے گئے 337 رنز کی بدولت 657 رنز کا مجموعہ حاصل کیا اور مقابلہ بچا لیا۔ دوسرے مقابلے میں ویسٹ انڈیز نے اپنے تجربے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور گیری سوبرز کی دونوں اننگز میں نصف سنچریوں اور ایورٹن ویکس، روہن کنہائی، وکٹ کیپر گیری الیگزینڈر اور کولی اسمتھ کے بھرپور ساتھ کی بدولت پاکستان کو 356 رنز کا بھاری بھرکم ہدف دیا، جس کے حصول میں پاکستان ناکام ہوا اور سوائے حنیف محمد اور سعید احمد کے کوئی کھلاڑی ویسٹ انڈین باؤلرز کے سامنے نہ جم سکا اور پاکستان مقابلہ 120 رنز سے ہار گیا۔ اس شکست کے بعد جو کسر رہ گئی تھی وہ ویسٹ انڈیز نے سبائنا پارک، کنگسٹن، جمیکا میں پوری کردی جہاں پاکستان کے 328 رنز کے جواب میں گیری سوبرز نے 365 رنز کی ریکارڈ ساز اننگز جڑ ڈالی اور کونارڈ ہنٹے کے ساتھ ان کی 446 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کو مقابلے کی دوڑ سے باہر کردیا۔ 790 رنز کے پہاڑ جیسے مجموعے تلے پاکستانی بیٹنگ لائن سخت دباؤ کا شکار ہوگئی اور پوری ٹیم دوسری اننگز میں 288 رنز پر آؤٹ ہوکر ویسٹ انڈیز کو اننگز اور 74 رنز کی بڑی فتح دے گئی۔ چوتھا ٹیسٹ جارج ٹاؤن، گیانا میں کھیلا گیا جہاں 8 وکٹوں کی ایک آسان فتح ویسٹ انڈیز کی منتظر تھی اور یوں سیریز تین-صفر سے ویسٹ انڈیز کے نام ہوگئی۔ ویسٹ انڈیز نے یہاں 317 رنز کا بڑا ہدف محض 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا اور اپنی بیٹنگ صلاحیت کا بھرپور ثبوت دیا۔ پاکستان کی باؤلنگ ہرگز اتنی کمزور نہ تھی لیکن فضل محمود کا زخمی ہونا ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوا اور پاکستان اتنے بڑے ہدف کا دفاع نہیں کر پایا۔

اب صرف سیریز کا ایک مقابلہ باقی تھا جو کوئنز پارک اوول، پورٹ آف اسپین میں کھیلا جانا تھا اور یہی پاکستان کے پاس آخری موقع تھا کہ وہ کم از کم ایک جیت کے ساتھ وطن لوٹے اور اس سے بہتر آغاز پاکستان کو مل بھی نہیں سکتا تھا جس نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والے ویسٹ انڈیز کے ابتداء ہی میں دونوں اوپنرز ٹھکانے لگا دیے۔ فضل محمود نے کونارڈ ہنٹے اور خان محمود نے روہن کنہائی کو صفر کی ہزیمت سے دوچار کیا تو پاکستان کے حوصلے بہت بلند ہوئے۔ پھر 50 کے مجموعے سے قبل فضل محمود کا گیری سوبرز کی بڑی وکٹ حاصل کرنا ویسٹ انڈیز کے لیے مشکلات کھڑی کرگیا۔ اتنی زیادہ کہ ایورٹن ویکس کے 51، کلائیڈ والکوٹ کے 47، کولی اسمتھ کے 86اور کپتان گیری الیگزینڈر کے 38 رنز بھی اسے ایک بڑے مجموعے تک نہیں پہنچا پائے اور اننگز 268 رنز پر تمام ہوئی۔

فضل محمود نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ وہ پاکستان کی فتوحات کے معمار ہیں۔ 83 رنز دے کر 6 وکٹوں کی کارکردگی نے پاکستان کو بہترین مقام تو دلا دیا لیکن اس جگہ بلے بازوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستان کی گرفت کو مضبوط کریں۔ 69 رنز تک پہنچتے پہنچتے دونوں اوپنرز گنوانے کے بعد سعید احمد اور وزیر محمد نے یہ کام انجام دیا۔ تیسری وکٹ پر 169 رنز کی شراکت داری کا خاتمہ بدقسمتی کے ساتھ ہوا کیونکہ سعید 97 رنز پر آؤٹ ہوئے۔ اب محمد برادران یعنی وزیر اور حنیف محمد کریز پر تھے اور دونوں نے مزید 154 رنز کی ساجھے داری کے ذریعے ویسٹ انڈیز کی مشکلات میں خاصا اضافہ کردیا۔

وزیر محمد پاکستان کی جانب سے ڈبل سنچری بنانے والے پہلے بیٹسمین بن سکتے تھے لیکن لانس گبز کی آف بریک گیند کو سمجھنے میں غلطی نے انہیں اس سنگ میل تک پہنچنے سے روک دیا۔ 405 منٹ تک کریز پر قیام کے دوران 22 چوکوں سے مزین 189 رنز تک کی اننگز اپنے اختتام کو پہنچی لیکن اس وقت وہ پاکستان کے مجموعے کو 392 رنز تک ضرورپہنچا چکی تھی۔ حنیف محمد کے 54 رنز کے بعد کپتان عبد الحفیظ کے 44 اور خان محمد کے 26 رنز پاکستان کے مجموعے کو 496 رنز تک لے گئے اور یوں پاکستان 228 رنز کی شاندار برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

وزیر محمد ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بن جاتے، لیکن 189 رنز پر آؤٹ ہوگئے (تصویر: Getty Images)
وزیر محمد ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بن جاتے، لیکن 189 رنز پر آؤٹ ہوگئے (تصویر: Getty Images)

ویسٹ انڈیز کا ہمیشہ سے کھیلنے کا خاص انداز رہا ہے۔ وہ جتنے زیادہ دباؤ میں ہوتے ہیں اتنی ہی جارحانہ کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ایک بھاری خسارے کے بوجھ تلے انہوں نے تیز رفتاری سے کھیل کا آغاز کیا لیکن وکٹ تین روز کے کھیل کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور اسپن باؤلنگ کے لیے سازگار ہوتی جا رہی تھی۔ کپتان عبد الحفیظ کاردار نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے گیند نسیم الغنی کی طرف اچھال دی۔ نسیم نے اسی سیریز میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تھا اور ایک اینڈ سے انہوں نے آف بریک باؤلنگ سنبھالی تو دوسرے سے ایک اور نووارد حسیب احسن نے ان کا ساتھ نبھایا۔

حسیب احسن نے بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 71 رنز تک پہنچنے کے بعد مطمئن ہوجانے والے ویسٹ انڈین دستے میں پہلی ہلچل مچائی۔ روہن کنہائی کی وکٹ ان کے ہتھے چڑھی جبکہ نسیم الغنی نے دوسرے اینڈ سے کونارڈ ہنٹے کو ٹھکانے لگایا۔ سب سے اہم وکٹ بھی نسیم ہی کے ہاتھ لگی جنہوں نے گیری سوبرز کو کلین بولڈ کیا اور پھر حسیب نے ایورٹن ویکس کو بھی اسی طرح پویلین لوٹا دیا۔ جب کولی اسمتھ کو امتیاز احمد نے نسیم کی گیند پر اسٹمپ کیا تو ویسٹ انڈیز محض 141 رنز پر آدھی ٹیم سے محروم ہوچکا تھا اور پاکستان کو یقین ہوگیا کہ وہ دن آن پہنچا ہے جب اسے ویسٹ انڈیز پر فتح نصیب ہوگی۔

کلائیڈ والکوٹ آخری امید کی صورت میں کریز پر موجود تھے، لیکن ویسٹ انڈیز کو میچ بچانے، بلکہ اننگز کی شکست سے بچنے، کے لیے دوسرے اینڈ پر بھی بلے بازوں کے جمنے کی ضرورت تھی اور نسیم الغنی کے سامنے اس روز ڈٹنا تقریباً ناممکنات میں سے تھا جنہوں نے جیس وِک ٹیلر کو وکٹ کیپر امتیاز احمد کی مدد سے آؤٹ کرکے پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں ایک اور فاتحانہ باب کا اضافہ کردیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک اننگز اور ایک رن کی یادگار فتح کا!

نسیم الغنی نے دوسری اننگز میں 67 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ مقابلے میں ان کی مجموعی وکٹوں کی تعداد 8 رہی۔ اس شاندار کارکردگی کے ساتھ وہ اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین باؤلر بنے کیونکہ اس وقت نسیم کی عمر محض 16 سال اور 303 دن تھی۔ ان کے علاوہ 8 ہی وکٹیں فضل محمود کو بھی ملیں جبکہ حسیب احسن نے روہن کنہائی اور ایورٹن ویکس کی قیمتی وکٹیں حاصل کرکے اس جیت میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔

یوں تو پاکستان سیریز تین-ایک سے ہار گیا لیکن پورٹ آف اسپین کی اس فتح کی بدولت پاکستان کا تمام ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے خلاف کم از کم ایک مقابلہ جیتنے کا ریکارڈ برقرار رہا۔ وہ بھی اس صورتحال میں کہ پاکستان کو ٹیسٹ رکنیت ملے ہوئے محض 4 سال گزرے تھے اور اتنے مختصر عرصے میں انگلستان، بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز جیسے دہائیوں سے کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو زیر کرنا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا اور اس کا پورا سہرا کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کپتان عبد الحفیظ کاردار کو بھی جاتا ہے۔