[آج کا دن] نشان عبرت بن جانے والا سلیم ملک

4 1,060

میچ فکسنگ کا داغ سہنے کے بعد تاحیات پابندی کا شکار بننے والے پاکستان کے سلیم ملک کا آج 51 واں یوم پیدائش ہے۔ کلائی کی طاقت کے ذریعے دنیا کے بہترین گیندبازوں کے چھکے چھڑا دینے والے سلیم کے کیریئر کا اختتام بدترین انداز میں ہوا، شاید تاریخ میں کسی کھلاڑی کا انجام ایسا نہ ہوگا۔

ایسا بلے باز جو 1988ء میں وزڈن کی جانب سے سال کا بہترین کھلاڑی قرار دیا جائے، 12 سال کے بعد تاحیات پابندی کی سزا بھگت کر دنیائے کرکٹ سے رخصت ہوا۔ پاکستان نے میچ فکسنگ کی تحقیقات کے لیے جسٹس ملک محمد قیوم کی زیر قیادت ایک کمیشن مرتب کیا تھا جس نے سلیم ملک پر تاحیات پابندی عائد کی یہاں تک کہ 8 سال کے بعد پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ان پر عائد پابندی اٹھا لی۔

سلیم ملک محض 16 سال کی عمر میں پاکستان انڈر19 کے دورۂ بھارت و سری لنکا کے لیے منتخب ہوئے اور یہیں سے منظرعام پر آنا شروع ہوئے۔ لاہور کی جانب سے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز کیا اور پھر مارچ 1982ء میں سری لنکا کے خلاف پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنا کر ڈیبیو پر سنچری بنانے والے پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین بلے باز بنے۔ اس وقت سلیم کی عمر محض 18 سال تھی ۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے اس بلے باز اس وقت عالمی شہرت سمیٹی جب 1987ء کے اوائل میں پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا۔ شارجہ میں تاریخی فتح کے چند ماہ بعد ہونے والے اس دورے کا دوسرا مقابلہ کلکتہ کے تاریخی ایڈن گارڈنز میں کھیلا گیا جہاں 80 سے 90 ہزار تماشائی بھارت کو سیریز برابر کرتے دیکھنا چاہ رہے تھے اور میزبان میچ کے بیشتر مقابلے میں غالب بھی رہا۔ 40 اوورز تک محدود ہوجانے والے اس مقابلے میں پاکستان 239 رنز کے بڑے ہدف کے تعاقب میں 161 رنز پر پانچ وکٹوں سے محروم ہوا اور اس مقام پر سلیم ملک کی 'ٹی ٹوئنٹی طرز کی اننگز' نے بھارت کے جبڑوں سے فتح چھین لی۔ پاکستان کو آخری 8 اوورز میں 78 رنز کی ضرورت تھی اور پھر ملک کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ اس میچ کی سب سے اہم جھلک کپل دیو کا وہ اوور تھا جس میں سلیم ملک نے انہیں پانچ چوکے رسید کیے یہاں تک کہ آخری اوور کی تیسری گیند پر کور پوائنٹ پر زبردست ڈرائیو کے ساتھ اننگز کا گیارہواں چوکا لگایا اور پاکستان کو مقابلہ جتوا دیا۔ کرکٹ کے معروف جریدے وزڈن نے اسے 'ایک روزہ کرکٹ میں اپنی نوعیت کی بہترین اننگز' قرار دیا تھا۔

جاوید میانداد کا جانشیں اور کیریئر کا ایسا بھیانک انجام (تصویر: AFP)
جاوید میانداد کا جانشیں اور کیریئر کا ایسا بھیانک انجام (تصویر: AFP)

اگر شائقین کی نظر سے دیکھا جائے تو ان کے کیریئر کے بہترین لمحات وہ تھے جب 1994ء میں آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وقت قیادت سلیم ملک کے ہاتھوں میں تھی اور پاکستان نے انضمام الحق کی ناقابل شکست 58 رنز کی اننگز کی بدولت محض ایک وکٹ سے کامیابی حاصل کرکے کراچی میں اپنے ریکارڈ کو برقرار رکھا۔ لیکن یہی وہ مقابلہ تھا جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس میں سلیم ملک نے مارک واہ اور شین وارن کو پیشکش کی تھی کہ وہ ان سے پیسے لے کر مقابلہ ہار جائیں۔ لیکن اس پس پردہ حقیقت کے بجائے میدان عمل میں مقابلہ بہت ہی سنسنی خیز ہوا ۔ پاکستان کی جب محض ایک وکٹ باقی بچی تو اسے جیتنے کے لیے 57 رنز کی ضرورت تھی اور انضمام اور مشتاق احمد نے یہ رنز بنا کر پاکستان کو یادگار فتح سے نواز دیا۔

لیکن سلیم ملک کی بہترین اننگز وہ تھی جو انہوں نے راولپنڈی میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں کھیلی۔ آسٹریلیا کے 521 رنز کے جواب میں پاکستان محض 260 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ فالو آن کرتے ہوئے سلیم ملک کی تاریخی ڈبل سنچری اور سعید انور اور عامر سہیل کی دھواں دار بیٹنگ نے پاکستان کے لیے مقابلہ بچایا۔ سلیم ملک نے 237 رنز کی اپنے کیریئر کی اس بہترین اننگز میں 328 گیندوں کا سامنا کیا اور 34 مرتبہ گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔ راولپنڈی میں آسٹریلیا کو جیتنے سے روکتے ہوئے آخری مقابلہ لاہور میں ہوا جہاں آسٹریلیا کے پاس سیریز بچانے کا آخری موقع تھا اور یہاں بھی سلیم ملک اس کے آڑے آ گئے۔ پہلی اننگز میں 75 کے بعد انہوں نے دوسری اننگز میں 143 رنز کی شاندار باری اس وقت کھیلی جب پاکستان 107 رنز پر پانچ وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا اور برتری محض 25 رنز کی تھی۔ یہاں سلیم ملک نے عامر سہیل کے ساتھ مل کر چھٹی وکٹ پر 196 رنز جوڑے ۔ یہاں تک کہ 242 گیندوں پر 19 چوکوں سے مزین ایک اور بہترین اننگز اختتام پذیر ہوئی اور بعد ازاں پاکستان نے شاندار انداز میں سیریز جیت لی۔

مجموعی طور پر 103 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سلیم ملک نے 5768 رنز بنائے جن میں 15 سنچریاں اور 29 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ علاوہ ازیں ملک نے 283 ایک روزہ مقابلے بھی کھیلے اور 32.88 کے اوسط سے 7170 رنز بنائے جن میں 5 سنچریاں اور 47 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ کپتان کی حیثیت سے سلیم ملک نے 12 ٹیسٹ اور 34 ایک روزہ مقابلے کھیلے۔

جو بلے باز جاوید میانداد جیسے عظیم بیٹسمین کا جانشیں سمجھا جائے، اسے اپنے مرتبے کا خیال رکھنا چاہیے تھا اور بدقسمتی سے سلیم ملک اس میں ناکام ہوئے اور آنے والے نسلوں کے لیے نشان عبرت بن گئے۔