وقار یونس ’’بولڈ‘‘ ہونے کو تیار ہیں؟؟

4 1,023

ذرائع ابلاغ کے تمام تر زور کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ نے وہی کیا، جس کی جانب کرک نامہ نے چند روز قبل اشارہ دے دیا تھا کہ نئے ہیڈ کوچ اور دیگر تربیتی عملے کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے پی سی بی ایک اشتہار شائع کرے گا۔ بالآخر گزشتہ روز ٹیم نتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی کے حوالے سے وہی اعلان ہوا کہ ان عہدوں کو مشتہر کیا جائے گا اور درخواستوں کو دیکھتے ہوئے ’’میرٹ‘‘ پر نئے ہیڈ کوچ اور دیگر کوچز کا انتخاب ہوگا۔ یہ بات الگ ہے کہ نئی کوچ فائنڈنگ کمیٹی بھی انہی افراد پر مشتمل ہوگی جو پی سی بی کی مینجمنٹ کمیٹی کے اراکین اور چیئرمین کے ’’حکم‘‘ کے پابند ہیں۔

گیند اب وقار کے کورٹ میں ہے، اگر وہ درخواست نہیں دیتے تو معین خان کے لیے راستہ صاف ہوگا (تصویر: Getty Images)
گیند اب وقار کے کورٹ میں ہے، اگر وہ درخواست نہیں دیتے تو معین خان کے لیے راستہ صاف ہوگا (تصویر: Getty Images)

اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شکست کے باوجود سابق کپتان و وکٹ کیپر معین خان کا پی سی بی سے جانے کو دل نہیں چاہتا اور ان کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی حیثیت سے بورڈ سے ضروروابستہ رہیں۔ اگر ہیڈ کوچ کی حیثیت سے معین خان کی کارکردگی بہتر ہوتی تو ان کی یہ خواہش باآسانی پوری ہوسکتی تھی ۔ جنہیں چیف سلیکٹر اور پھر مینیجر اور آخر میں قومی ٹیم کا کوچ بنا دیا جائے، جس کے لیے وقار یونس جیسے تجربہ کار کی درخواست رد کردی جائے، اسے برقرار رکھنا کون سا مشکل تھا؟ لیکن اب حالات ایسے نہیں رہے۔ اگر میرٹ کی بات کی جاتی تو یہ عہدہ پہلے ہی وقار یونس کو ملنا چاہیے تھا، وہ پاکستان کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے یہ ذمہ داری احسن انداز میں انجام دے چکے ہیں اور باؤلنگ کوچ کی حیثیت سے بھی خدمات دے سکتے ہیں مگر قرعہ فال منظور نظر معین خان کے نام نکلا، یا نکالا گیا، جن کی کارکردگی اب ملک کے سامنے ہے۔

حالیہ کارکردگی کے بعد تو اصولی طور پر معین خان ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے موزوں ٹھہرتے ہی نہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ عہدہ دوبارہ معین خان کو سونپنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ قومی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچ مقرر نہ کرنے کا فیصلہ تو پہلے ہی ہوچکا اور یہ بات بھی تقریباً طے ہی ہے کہ جلال الدین یا ان جیسے غیر معروف سابق کھلاڑیوں کو کوچ نہیں بنایا جائے گا تو یوں دوڑ میں صرف معین خان اور وقار یونس ہی باقی بچتے ہیں۔

درحقیقت پاکستان کے اسٹارز کا سب سے بڑا مسئلہ انا رہا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ خود کو سپر اسٹار سمجھتے ہیں۔ یہ تو وقار یونس کی ’’مہربانی‘‘ تھی کہ انہوں نے قومی ٹیم کی کوچنگ کرنے کے لیے ’’درخواست‘‘ دی، یعنی کہ درخواست کی، ورنہ بہت سے بڑے کھلاڑی تو یہی چاہتے ہیں کہ پی سی بی کا چیئرمین خود چل کر ان کے پاس آئے۔وقار یونس نے جب کوچنگ کے لیے درخواست دی تو انہیں پورا یقین تھا کہ وہ اس عہدے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، کیونکہ وہ سب سے مضبوط امیدوار تھے مگر پی سی بی نے معین خان کو منتخب کرکے وقار کو حیرت زدہ کردیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک مرتبہ ’’مسترد‘‘ ہونے کے بعد کیا وقار یونس دوبارہ اس عہدے کے لیے درخواست دیں گے؟وقار اس وقت بھارت کی ریاستی ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ وہ مصروفیت کے سبب پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کے لیے دستیاب نہیں مگر دوسری طرف ورلڈ کپ 2015ء میں گرین شرٹس کی کوچنگ کرنے کی کشش بھی اپنی جگہ موجود ہے اور 23 برس پہلے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی سے محروم رہنے والے وقار یونس اس مرتبہ کوچ کی حیثیت سے قومی ٹیم کو ورلڈ کپ میں سرخرو کروا کر اپنا اس خواب کی تعبیر حاصل کرنا چاہیں گے، جو وہ دو عشرے پہلے وہ پورا نہیں کرپائے تھے۔

اگر وقار یونس نے ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے نام نہ بھیجا تو معین خان کے لیے راستہ صاف ہوجائے گا اور پی سی بی کے چیئرمین فخریہ طور پر کہہ سکیں گے کہ انہوں نے میرٹ کی بنیاد پر نئے کوچ کا انتخاب کیا ہے ۔ لیکن اس مرحلے سے پہلے گیند اس وقت وقار یونس کے کورٹ میں ہے۔ کیا وہ ایک مرتبہ پھر پی سی بی کے ہاتھوں’’بولڈ‘‘ہونا چاہیں گے کیونکہ معین خان پر پی سی بی کی ’’مہربانیوں‘‘ میں کمی ہونے کا کوئی تو امکان نظر نہیں آتا!!