پاکستان کے میدانوں پر آئی پی ایل میلہ

1 1,030

پانچ سال قبل موسم بہار میں پاکستان کرکٹ پر خزاں چھائی، جب پاک-سری لنکا سیریز کے دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے دن کے کھیل کے لیے مہمان دستہ قذافی اسٹیڈیم کے سبزہ زار کی جانب رواں تھا کہ دہشت گردوں نے ان پر حملہ کردیا۔ سری لنکا کوئی کھلاڑی جان سے تو نہیں گیا، لیکن پاکستان کی کرکٹ ضرور لب گور پہنچ گئی۔

ابوظہبی، دبئی اور شارجہ پانچ سال سے پاکستان کے میزبان ہیں، لیکن اب یہاں ہونے والے مقابلوں سے پاکستانی کھلاڑی ہی غائب ہیں (تصویر: AP)
ابوظہبی، دبئی اور شارجہ پانچ سال سے پاکستان کے میزبان ہیں، لیکن اب یہاں ہونے والے مقابلوں سے پاکستانی کھلاڑی ہی غائب ہیں (تصویر: AP)

اس حالت میں کہ دنیا کا کوئی ملک پاکستان میں کھیلنے کو تیار نہیں تھا، قومی کھلاڑیوں نے گھر سے دور ایک نیا گھر بنایا اور وہ ہے متحدہ عرب امارات۔ لاہور، کراچی، فیصل آباد، راولپنڈی اور پشاور کی جگہ ابوظہبی، دبئی اور شارجہ کے میدانوں کی رونقیں بحال ہوئیں اور پھر پاکستان نے یہاں تاریخی کامیابیاں سمیٹیں ۔ عالمی نمبر ایک انگلینڈ کو تین-صفر کی شکست سے دوچار کرنا، جنوبی افریقہ کے خلاف دو مرتبہ سیریز برابر کرنا اور پھر سری لنکا کے خلاف تاریخ کا تیز ترین تعاقب ابوظہبی، دبئی اور شارجہ کے انہی میدانوں پر انجام دیے گئے کارنامے ہیں۔ پھر ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی تاریخ کے دو بہترین مقابلے بالترتیب 2010ء میں جنوبی افریقہ اور 2012 ء میں آسٹریلیا کے خلاف یہیں کھیلے گئے۔ اول الذکر میں عبد الرزاق نے ون ڈے کرکٹ تاریخ کی یادگار ترین اننگز میں سے ایک کھیلی اور آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی مقابلہ سپر اوور مرحلے تک جاکر پاکستان کی دلچسپ فتح پر منتج ہوا۔

ان ناقابل فراموش فتوحات کے ساتھ پاکستان کے تماشائیوں کی ان میدانوں سے جذباتی وابستگی سی بن گئی لیکن اب وہاں انڈین پریمیئر لیگ ہوتے دیکھنا، وہ بھی پاکستانی کھلاڑیوں کے بغیر، یہاں کے باسیوں کے لیے خاصا مایوس کن منظر ہے۔

آئی پی ایل7 کا پہلا مرحلہ ہندوستان میں عام انتخابات کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کے ان تینوں میدانوں میں منتقل کیا گیا تھا اور یہاں ہر دن عید اور ہر رات شب برات نظر آئی۔ لیکن اس میلے میں پاکستان کی کمی کم از کم یہاں کے شائقین کو تو بہت زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔

2008ء میں ممبئی میں دہشت گرد حملوں کے بعد سے منقطع ہونے والے پاک-ہند تعلقات میں گزشتہ سال کچھ برف پگھلتی ضرور دکھا ئی دی تھی، جب پاکستان نے محدود اوورز کی ایک مختصر سیریز کھیلنے کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک "محاذ" پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

پاکستانی کھلاڑیوں کی دستیابی کے باوجود آئی پی ایل کا کوئی فرنچائز انہیں لینے کو تیار نہیں ہوا اور اس مرتبہ تو برق بیچارے ان کرکٹرز پر بھی گری جو پاکستانی نژاد تھے، جیسا کہ اظہر محمود، فواد احمد اور عمران طاہر۔ نیلامی میں ان کی بولی لگانے والا بھی کوئی نہیں پایا گیا اور یوں آئی پی ایل کا ایک اور سیزن پاکستانی کھلاڑیوں کے بغیر گزر رہا ہے۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر پاکستانی رنگ بھی آئی پی ایل میں شامل ہوجائے تو اس کے حسن کو چار چاند لگ جائیں گے، لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بھارت کا کرکٹ بورڈ ہر گز نہیں چاہتا کہ اس کا پیسہ پاکستان کرکٹ بورڈ تو کجا انفرادی سطح پر بھی کسی پاکستانی کھلاڑی کے کام آ جائے، اس لیے پاکستان کے کھلاڑیوں کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ جاری ہے اور نجانے کھیل کو سیاست کی نذر کرنے کی یہ روش کب تک جاری رہے گی۔