ثقی یا مشی؟

5 1,043

نجم سیٹھی دوسری مرتبہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کیا بنے؟ سابق کرکٹرز شہد کی مکھیوں کی طرح پی سی بی کے ’’چھتے‘‘ پر آ بیٹھنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ کئی برسوں سے بیرون ملک رہ کر ’’غیروں‘‘ کی خدمت کرنے والوں کے دل میں بھی جذبہ حب الوطنی جاگ گیا ہے، جو اب اپنے ملک کو’’کچھ‘‘ لوٹانے کے لیے قومی ٹیم سے منسلک ہونا چاہتے ہیں۔ 90ء کے عشرے کے لگ بھگ تمام بڑے پاکستان کرکٹ بورڈ سے منسلک ہوگئے ہیں یا ہونے کو ہیں۔ راشد لطیف پی سی بی کی پیشکش ٹھکرا چکے ہیں مگر معین خان سے لے کر وجاہت اللہ واسطی تک تمام اہم نام پاکستان کرکٹ بورڈ کی ’’چھتری‘‘ تلے جمع ہوچکے ہیں۔

مشتاق اور ثقلین دونوں اسپن باؤلنگ کوچ کے عہدے کے لیے دوڑ میں شامل ہیں (تصویر: AFP)
مشتاق اور ثقلین دونوں اسپن باؤلنگ کوچ کے عہدے کے لیے دوڑ میں شامل ہیں (تصویر: AFP)

محمد اکرم کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا سربراہ بنا کر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ دیار غیر میں بسنے والے دو پاکستانی اسپنرز مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق کے لیے جگہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ اسپن بالنگ کنسٹلنٹ کا اشتہار بھی یہی ثابت کررہا ہے کہ ماضی کے ان دو نامور اسپنرز میں سے کسی ایک کو اس عہدے پر لایاجائے گا۔ مشتاق احمد کافی عرصے سے انگلینڈ کی ٹیم کے لیے اسپن بالنگ کوچ کے فرائض ادا کررہے تھے مگر اب وہ جس سرعت کے ساتھ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے چکر لگا رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مشتاق احمد یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے کتنی محنت کررہے ہیں اور اسی لیے اسپن بالنگ کنسلٹنٹ کے لیے مشتاق احمد مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف مختلف انٹرنیشنل ٹیموں کے لیے اسپن بالنگ کوچ کی ذمہ داریاں نبھانے والے ثقلین مشتاق بھی ہیڈ کوچ اور بالنگ کوچ کے عہدے کے لیے درخواست دے چکے ہیں جن کے پاس انٹرنیشنل کرکٹ میں کوچنگ کا تجربہ بھی ہے اور کوچنگ کورسز کی سند بھی۔

مشتاق احمد یا ثقلین مشتاق کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں ہے جبکہ یہ دونوں ممالک خود کو انٹرنیشنل کوچ کی حیثیت سے بھی ثابت کرچکے ہیں لیکن مشتاق احمد نے انگلینڈ جبکہ ثقلین مشتاق نے نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کے اسپنرز کی رہنمائی کی ہے اور قدرتی طور پر ان ممالک میں اسپن بالنگ کی ویسی صلاحیت موجود نہیں ہے جو پاکستان، بھارت یا سری لنکا میں دستیاب ہے ۔’’مشی‘‘ اور’’ ثقی‘‘ نے ان ٹیموں کے ساتھ بہت اچھا کام کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کے یہ دونوں جادوگر سعید اجمل، شاہد آفریدی، عبدالرحمن یا ذوالفقار بابر جیسے بالرز کے لیے کتنے مددگار ثابت ہونگے ۔

پاکستان کے پاس اس وقت ورلڈ کلاس اسپنرز موجود ہیں لیکن فاسٹ بالنگ کا شعبہ زوال کا شکار ہے اور اگر وقار یونس کو ہیڈ کوچ کے طور پر لایا جاتا ہے تو پھر پاکستانی ٹیم کو کسی بالنگ کوچ کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر یہ ضرورت پیش آئی تو محمد اکرم موجود ہیں جن کے بارے میں پی سی بی بھی وضاحت کرچکا ہے کہ اکرم کو بالنگ کوچ کی حیثیت سے قومی ٹیم کے ساتھ ٹورز پر بھیجا جاسکتا ہے ۔

قومی ٹیم میں اس وقت کئی اچھے اسپنرز موجود ہیں لیکن ان اسپنرز کی جگہ کون لے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔عدنان رسول، عاطف مقبول یا یاسر شاہ اپنے کیرئیر کا بیشتر حصہ ڈومیسٹک کرکٹ کی نظر کرچکے ہیں اس لیے مستقبل کے لیے نوجوان اسپنرز تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ دانش کنیریا کے بعد پاکستان کو کوئی ڈھنگ کا لیگ اسپنر نہیں مل سکا۔ آف اسپنرز کے حوالے سے بھی پاکستان کرکٹ قحط کا شکار ہورہی ہے اس لیے پی سی بی اگر مشتاق یا ثقلین کو قومی ٹیم کا بالنگ کوچ یا اسپن بالنگ کنسلٹنٹ بنانے کی بجائے گراس روٹ لیول پر کام کرنے کے لیے آمادہ کرلے تو یہ دونوں سابق اسپنرز یا ان میں سے کوئی ایک پاکستان کرکٹ کو مستقبل کے اسپنرز دے سکتے ہیں۔

ثقلین مشتاق ان دنوں اپنے ایک دوست کے توسط سے قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ بننے کی اخباری’’مہم‘‘ چلا رہے ہیں جنہیں آج کل شہ سرخیوں میں جگہ مل رہی ہے مگر قلعہ گجر سنگھ سے تعلق رکھنے والا سابق اسپنر اگر ٹھنڈے ملک کو چھوڑ کر پاکستان کی گرمی میں نئے اسپنرز کی تیاری کا بیڑہ اٹھا لے تو یہ صحیح معنوں میں پاکستان کرکٹ کی خدمت ہوگی ۔