بورڈ کا محسن خان کو جواب، کیا انگور “اکٹھے” ہیں؟

3 1,091

پاکستانی میڈیا تو پہلے سے ہی مادر پدر آزاد ہے جو خود پر تنقید برداشت نہیں کرتا بلکہ ٹی وی چینلز اپنے خلاف بولنے والے کو جب تک ننگا نہ کردیں اس وقت تک انہیں یقین نہیں آتا اور وہ بے شرم ہوکر کسی کا بھی ”کارٹون“ بنا کر اپنے ”پرائم ٹائم“ میں چلا دیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کی اس ڈھٹائی کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی اپنالیا ہے جو اپنے خلاف بولنے والوں کا تمسخر اڑانے سے بھی دریغ نہیں کررہا۔قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کی تقرری کے حوالے سے سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن خان نے شور مچایا اور اس سارے عمل کو ڈرامہ قرار دیا تو پی سی بی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ نے جواباً محسن خان کا تمسخر اڑاتے ہوئے یہ ٹویٹ جاری کی کہ پی سی بی نے محسن خان کی سفارش قبول نہیں کی اور ان کے الزامات ”انگور کھٹے ہیں“ کی مثال کے مترادف ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ ایک بڑا اور معتبر ادارہ ہے کیا اس ادارے کی طرف سے ایسے طرز عمل کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے جو محسن خان کےساتھ اپنایا گیا ہے؟ حالیہ دنوں میں پی سی بی پر چاروں اطراف سے تنقید کی گئی ہے اور کئی سابق کھلاڑیوں نے کرکٹ بورڈ پر سخت الفاظ کے گولے بھی پھینکے ہیں اور سابق کپتان راشد لطیف نے بھی کوچ کی تقرری کے لیے دیے گئے اشتہار کو ڈھونگ قرار دیا تھا مگر پی سی بی نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور نہ کسی کھلاڑی کی تنقید کے ردعمل میں طنزیہ ٹویٹ کی یا پریس ریلیز جاری کی مگر محسن خان کی پریس کانفرنس کے چند گھنٹوں کے بعد جذباتی قسم کی ٹویٹ کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟ انگور کھٹے ہیں کی مثال پیش کرنے والوں کے لیے جواباً کہا جاسکتا ہے کہ ”چور کی داڑھی میں تنکا“!اور اسی تنکے نے پی سی بی کو تنکنے پر مجبور کیا۔

انگلینڈ کے خلاف پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں تین صفر کی کامیابی دلوانے محسن خان ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار تھے جنہوں نے پانچ مئی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے دو دن پہلے ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے درخواست دی تھی۔ محسن خان کا شکوہ اپنی جگہ درست ہے کہ پی سی بی پہلے ہی وقار یونس کےساتھ ڈیل کرچکا تھا جو کہتے ہیں کہ وہ کوچنگ کے لیے کسی کا بھی انتخاب کرسکتےتھے مگر انہیں دوسروں کو بے وقوف نہیں بنانا چاہیے۔ پی سی بی کے سربراہ اپنے ایک انٹرویو میں بھی یہ انکشاف کرچکے ہیں وہ وقار یونس کو پاکستانی ٹیم کا کوچ بنانا چاہتے ہیں اگر وہ اپنی پسند کا کوچ لانا چاہتے تھے تو وہ پھر اشتہار دینے کی ضرورت نہیں تھی اور اگر اشتہار دیا گیا تھا تو وہ اس عہدے کے لیے درخواست دینے والے امیدواروں کے انٹرویو کرنا بھی ضروری تھے مگر پی سی بی کے چیف نے وقار یونس نے ایک ملاقات کرکے ڈیڈ لائن ختم ہوتے ہی ان کے نام کا اعلان کردیا جبکہ دیگر امیدوار منہ دیکھتے رہ گئے جنہیں انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلایا گیا اور اب دیگر عہدوں پر تقرریاں ہونے جارہی ہیں ان میں بھی میرٹ کو پس پشت ڈال کر صرف وقار یونس کی رائے کو اہمیت دی جارہی ہے۔

محسن خان کی بہت سی باتیں درست ہیں اور کچھ عرصہ قبل یہی باتیں راشد لطیف نے بھی کی تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ داغدار ماضی کے حامل سابق کھلاڑیوں کو پی سی بی میں اکٹھا کررہا ہے اور راشد لطیف کی یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔پی سی بی نے محسن خان کے شکوے کو تو انگور کھٹے ہیں کے مترادف قرار دے دیا ہے مگر پی سی بی نے ایسے بہت سے ”انگور“ اکٹھے کرلیے ہیں جو داغدار ہیں!