[آج کا دن] سعید اجمل کے کیرئیر کا بدترین اوور

4 1,178

چند کھلاڑیوں کے کیریئر میں ایک ایسا بھیانک لمحہ آتا ہے جب وہ نہ صرف اپنے ملک کی شکست کا سبب بنتے ہیں، بلکہ خود بھی دل شکستہ ہوجاتے ہیں اور حالات اسے نہج پر پہنچاتے دیتے ہیں کہ عزیز و اقارب تو کجا خود ان کے پرستار بھی انہیں کھیل کو خیرباد کہنے کے مشورے دینے لگتے ہیں۔ اس لمحے پر قابو پانے والے محض چند ہی کھلاڑی ہیں، جو مشکل اور کٹھن ترین حالات کو بھی شکست دے کر میدان میں واپس آتے ہیں، بلکہ میدان مارتے ہیں۔

دل شکستہ سعید اجمل نے اس مقابلے کو کیریئر کا بدترین میچ قرار دیا تھا (تصویر: AFP)
دل شکستہ سعید اجمل نے اس مقابلے کو کیریئر کا بدترین میچ قرار دیا تھاا (تصویر: AFP)

آج سے ٹھیک چار سال قبل، 14 مئی ہی کے دن، پاکستان کے سعید اجمل کے کیریئر میں یہی مرحلہ آیا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء میں جہاں پاکستان اپنے اعزاز کا دفاع کررہا تھا، سیمی فائنل میں بالادست پوزیشن پر تھا۔ آسٹریلیا میچ کے غالب حصے میں پچھلے قدموں پر رہا اور پاکستان ایک مرتبہ پھر فائنل میں پہنچنے کے لیے بہترین پوزیشن میں دکھائی دیتا تھا یہاں تک کہ "وہ" آخری اوور آیا، جو سعید اجمل کے کیریئر کا ڈراؤنا خواب ہے۔

آسٹریلیا کو 192 رنز کا ہدف درکار تھا اور اس کے حصول کے لیے آخری اوور میں اسے 18 رنز کی ضرورت تھی۔ گیند سعید اجمل کے ہاتھ میں تھی اور آگے جو کچھ ہونے والا تھا، وہ کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ پہلی گیند پر مچل جانسن کے ایک رن کی بدولت اسٹرائیک لینے کے بعد ہسی قہر بن کر سعید پر ٹوٹ پڑے۔ اگلی مسلسل چار گیندوں پر تین چھکے اور ایک چوکے نے پاکستان کو اعزاز کی دوڑ سے باہر کردیا۔

سعید اجمل نے اس سے پہلے پھینکے گئے دو اوورز میں محض 11 رنز کھائے تھے لیکن آخری و قیمتی ترین اوور میں 18 رنز کی مار نے انہیں کہیں کا بھی نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ جب وہ وطن واپس آئے تو بقول ان کے اپنے کہ والد صاحب نے انہیں گھر میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور انہیں کئی دن اپنے دوست کے گھر رہائش اختیار کرنا پڑی۔

اس واقعے سے سعید اجمل نے بہت کچھ سیکھا، وہ بجائے شکست تسلیم کرنے اور حوصلہ ہارنے کے مزید قوت کے ساتھ ابھرے اور آج سعید ٹیسٹ میں عالمی نمبر پانچ، ایک روزہ میں نمبر ایک اور ٹی ٹوئنٹی میں عالمی نمبر تین گیندباز ہیں اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنے کیریئر کے بدترین لمحے کے بعد حاصل کیا۔