پاکستان کرکٹ بورڈ میں اقتدار کی جنگ

2 1,034

ہماری یادداشتیں بھی کمزور ہیں اور بطور قوم بھی ہم کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ہم الیکشن میں ایک سیاسی پارٹی کو دو تہائی اکثریت بھی دے کر اتنی خوشی مناتے ہیں کہ لاہور میں مٹھائی کی دکانوں سے مٹھائی ختم ہوجاتی ہے مگر پھر فوجی آمر کی آمد پر بھی خوب ڈھول بجاتے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں صرف ’’صاحب کو سلام‘‘ کی سوچ پروان چڑھ چکی ہے اور جو ’’صاحب‘‘ بنے پھرتے ہیں انہیں لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں آتا۔یہ ’’بیماری‘‘ پہلے صرف حکومتوں میں پائی جاتی ہے مگر اب اس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی گھیر لیا ہے جس کے سربراہ ملکی کرکٹ کی ترقی کا محض ڈھونگ ہی مچاتے ہیں کہ چیئرمین پی سی بی کی کرسی پر بیٹھ کر ان کا مقصد صرف اپنی جیبیں بھرنا، عزیز واقارب کو بیرون ملک کی سیریں کروانا اور اپنے قریبی لوگوں ک نوازنا ہی ہوتا ہے۔یہ اسی کرسی کا ’’چمتکار‘‘ ہے کہ پچھلے ایک سال سے ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی میں سانپ سیڑھی کا کھیل جاری ہے اور کوئی بھی فریق ہار ماننے کو تیار نہیں ہے بلکہ ننانوے پر ’’سانپ‘‘ کے ڈسنے کے بعد نیچے آ نا والا چیئرمین دوبارہ 100تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کسی ’’سیڑھی‘‘ کی تلاش شروع کردیتا ہے۔

zaka-ashraf-rehman-malik-mustafa-kamal-afp
نجم سیٹھی اور ذکاء اشرف میں سے کوئی ایک فریق بھی پاکستان کرکٹ کیلئے مخلص ہوتا تو کب کا سانپ سیڑھی کے کھیل سے دستبردار ہوچکا ہوتا (تصویر: AFP)

ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی کی اس جنگ میں حکومت بھی فریق بن چکی ہے جبکہ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سابق کھلاڑی بھی اقتدار کی اس جنگ میں دو حصوں میں تقسیم ہوکر ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی کے کیمپوں میں پناہ تلاش کرچکے ہیں کیونکہ ان کیلئے بھی بقاء کا یہی ایک راستہ ہے۔گزشتہ بارہ ماہ کے دوران پانچ مرتبہ چیئرمین کی تبدیلی سے پاکستان کرکٹ کی جو جگ ہنسائی ہوئی وہ ایک طرف ہے مگر اس ایک سال کے دوران عملی طور پر پاکستان کرکٹ کی بہتری کیلئے کچھ بھی نہیں ہوسکابلکہ پی سی بی کے یہ دونوں سربراہ جو مختلف سمتوں میں چل رہے ہیں اور فی الوقت پاکستان کرکٹ کے یہ دونوں ٹھیکیدار خود کو ہیرو ثابت کرتے ہوئے دوسرے کو ولن بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

جس طرح پاکستان میں آنے والی نئی حکومت پچھلی حکومت کے اچھے کاموں کو بھی ختم کردیتی ہے اور ان کی بات کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے بالکل اسی طرح نجم سیٹھی اور ذکاء اشرف بھی ایک دوسرے کو لتاڑنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ملکی مفاد کے برعکس اپنے مفادات کی حفاظت کرنے والے یہ دونوں افراد ہر معاملے پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ذکاء اشرف نے اپنے دور میں ’’بگ تھری‘‘ کی کھل کر مخالفت کی مگر نجم سیٹھی نے پی سی بی کی سربراہی سنبھالتے ہی اس سے بھی زیادہ شدت کیساتھ ’’بگ تھری‘‘ کی حمایت کردی۔اب ذکاء اشرف دوبارہ ’’بگ تھری‘‘ کی مخالفت کررہے ہیں ۔ ذکاء اشرف نے اس بات پر زور دیا کہ وہ بھارت کیساتھ سیریز کھیلنے کا تحریری معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جس پر بھارتی بورڈ راضی نہ ہوا لیکن نجم سیٹھی نے زبانی معاہدے کرلیے۔اس صورتحال میں پاکستان کا اسٹانس بار بار تبدیل ہورہا ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کرکٹ کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے مگر اقتدار کی جنگ میں سب کچھ بھلا دیا گیا ہے۔

ایک چیئرمین اپنے ساتھ اپنی پوری ٹیم لے کر آتا ہے جو بورڈ میں بیٹھ کر اس کی قصیدہ گوئی اور برطرف کیے جانے والے چیئرمین پر کیچڑ اچھالتی ہے اور جب دوسرے چیئرمین کو اقتدار ملتا ہے تو اس کے ساتھی بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ سابق کھلاڑی بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں جو اپنے ’’باس‘‘ کی رخصتی کیساتھ ایک لمحے میں زیرو ہوجاتے ہیں مگر جیسے ہی ان کے صاحب کی واپسی ہوتی ہے وہ بھی بورڈ میں اہم ترین عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔

اقتدار کی یہ جنگ پاکستان کرکٹ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ چار سال بعد کھیلا جانے والا ورلڈ کپ سر پر آن پہنچا ہے مگر فکر ہے تو صرف اپنی کرسی بچانے کی اور اس کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ ممکن ہے بہت سے لوگ مجھ سے اختلاف کریں لیکن یہ درست ہے کہ نجم سیٹھی اور ذکاء اشرف میں سے کوئی ایک فریق بھی پاکستان کرکٹ کیلئے مخلص ہوتا تو کب کا سانپ سیڑھی کے کھیل سے دستبردار ہوچکا ہوتا!!