یونس خان اپنی "ٹائمنگ" صحیح کرلیں!

5 1,113

حنیف محمد اور فضل محمود سے لے کر محمد یوسف تک عظیم کھلاڑیوں کی ایک قطار ہے جنہوں نے دنیائے کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ مگر اس قطار میں سے صرف عمران خان کو ہی شایان شان انداز سے کرکٹ چھوڑنے کا موقع نصیب ملا جس کی وجہ ان کی "ٹائمنگ" تھی کہ انہوں نے عالمی کپ 1992ء جیت کر ریٹائرمنٹ لینے کا انتخاب کیا۔ ورنہ ممکن ہے کہ دورہ انگلستان پر جانے کی ضد عمران خان کو بھی بے توقیری کیساتھ کرکٹ چھوڑنے پر مجبور کردیتی۔ اس کے علاوہ انضمام الحق کی ’’جبری‘‘ ریٹائرمنٹ کو کسی حد تک ’’قابل احترام‘‘ کہا جاسکتا ہے ۔ ان دو سابق کھلاڑیوں کے علاوہ پاکستان کے تمام عظیم کرکٹرز کو یا تو ناانصافی کا شکار بنایا گیا یا پھر اپنی بہترین کارکردگی پیچھے چھوڑ آنے کے باوجود کھیل سے چمٹے رہنے کی سزا دی گئی۔

یونس خان نے مارچ 2013ء میں اپنا آخری ایک روزہ مقابلہ کھیلا تھا (تصویر: گیٹی امیجز)
یونس خان نے مارچ 2013ء میں اپنا آخری ایک روزہ مقابلہ کھیلا تھا (تصویر: گیٹی امیجز)

موجودہ پاکستانی ٹیم میں شاہد آفریدی، مصباح الحق، یونس خان اور سعید اجمل ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں آنے والے مہینوں میں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ چاروں کھلاڑی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اپنے کیرئیر کے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ چند دن قبل شاہد آفریدی نے قذافی اسٹیڈیم میں جاری سمر کیپ کے دوران کہا کہ وہ عالمی کپ 2015ء کے بعد ایک روزہ طرز کرکٹ چھوڑنے اور صرف ٹی20فارمیٹ پر توجہ مرکوز رکھنے پر غور کریں گے۔ گو کہ اس بابت شاہد آفریدی کو ’’غور‘‘کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ پاکستان کیلئے 18 سال کرکٹ کھیلنے والے آفریدی کیلئے آسان فیصلہ ہونا چاہیے تاہم مزید کھیلنے کی خواہش نے ’’لالہ‘‘ کیلئے فیصلے کو مشکل کردیا ہے۔

شاہد آفریدی نے تو چلیں غور کرنے کی بات کہی مگر یونس خان نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ عالمی کپ کے بعد بھی مزید دو سے تین سال کھیلنا چاہتے ہیں بلکہ موجودہ فٹنس کیساتھ وہ دس سال تک بھی کھیل سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یونس خان کی فٹنس لاجواب ہے اور شاید اسی لیے محمد اکرم نے انہیں ’’سلامی ‘‘ بھی دی ۔ اس کے علاوہ یونس خان کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ انہیں شایان شان انداز سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے کرکٹ چھوڑنی چاہیے بجائے اس کے کہ انہیں ٹیم پر بوجھ سمجھتے ہوئے بیرونی دروازہ دکھایا جائے۔

یونس خان پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے چند عمدہ ترین بلے بازوں میں سے ایک ہیں اور میں یونس خان کا نام با آسانی جاوید میانداد، ظہیر عباس، انضمام الحق اور محمد یوسف جیسے مستند مڈل آرڈر بلے بازوں کی فہرست میں شامل کرسکتا ہوں جنہوں نے متعدد مرتبہ اپنی شاندار کارکردگی سے پاکستان ٹیم کو مشکلات سے نکالا ہے۔ مگر یونس خان کی عالمی کپ کھیلنے کی خواہش غیر منطقی اور حقیقت سے دور ہے کیونکہ یونس خان اپنے کیرئیر میں ایک روزہ طرز کرکٹ کے مثالی بلے باز نہیں رہے اور نہ ہی اوپری درجے کے بلے بازوں کی حیثیت سے اُن کے اعدادوشمار بھی ایسے نہیں جن کی بنیاد پر انہیں عالمی کپ کھیلنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ مارچ 2013ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف آخری ایک روزہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے یونس خان نے 2009ء کے بعد سے 71 ایک روزہ اننگز میں 25.9 کی اوسط سے 1736رنز بنائے ہیں جس میں بہترین اسکور 89 ہے۔تین عالمی کپ کھیلنے والے یونس خان کے دل میں اگلا عالمی کپ کھیلنے کی خواہش بیدار ہوئی ہے مگر کرکٹ کے سب سے بڑے ایونٹس میں یونس خان نے اب تک 15 باریوں میں محض 23.5 کی اوسط سے 306رنز بنائے ہیں جس میں 75 رنز ان کا بہترین اسکور ہے۔یہ اعداد و شمار عالمی کپ کھیلنے کے "خواہش مند" کی کارکردگی بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔

یونس خان کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ ان کا ایک روزہ کیرئیر ختم ہوچکا ہے البتہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں دو سے تین سال تک پاکستان کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ یونس نے اپنے بیان میں خود واضح کیا ہے کہ وہ ڈراپ ہونے کی بجائے شایان شان انداز سے رخصت ہونا چاہتے ہیں مگر اپنی رخصتی کو بہتر بنانے کیلئے یونس خان کو درست وقت کا تعین کرنا ہوگا کیونکہ عمدہ ٹائمنگ کیساتھ اسٹروکس کھیلنے والے بلے باز نے کرکٹ کے میدانوں کو الوداع کہنے کیلئے صحیح ’’ٹائم‘‘ کو نہ چنا تو پھر یونس خان کا نام بھی انہی کھلاڑیوں کیساتھ لکھا جائے گا جنہیں کرکٹ بورڈ اور سلیکٹرز کے جبر کا شکار ہونا پڑا۔