[آج کا دن] جب امپائر پاکستان کی راہ میں حائل ہوگئے

5 1,055

آپ سے پوچھا جائے کہ وسیم اکرم نے اپنے کیریئر کے کس مقابلے میں سب سے بہترین باؤلنگ کی تو آپ کا جواب شاید عالمی کپ 1992ء کا فائنل ہو، شاید 1999ء میں ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کا کولکتہ میں کھیلا گیا پاک-بھارت ٹیسٹ یا پھر کوئی اور مقابلہ لیکن ہماری نظر میں وسیم اکرم کی بہترین باؤلنگ وہ تھی جو انہوں نے 2000ء ویسٹ انڈیز کے خلاف سینٹ جانزمیں کھیلے گئے تیسرے و فیصلہ کن ٹیسٹ میں کی۔ پہلی اننگز میں 6 اور دوسری اننگز میں 5 وکٹوں کی شاندار کارکردگی بھی پاکستان کو مقابلہ اور سیریز نہ جتوا سکی۔ امپائروں کے ناقص ترین فیصلوں اور پاکستانی فیلڈرز کی غائب دماغی و نااہلی نے بازی ویسٹ انڈیز کی جھولی میں ڈال دی۔ یوں پاکستان کا ویسٹ انڈیز میں سیریز جیتنے کا خواب ایک مرتبہ پھر تعبیر حاصل نہ کرسکا، اور آج بھی یہ ریکارڈ جوں کا توں موجود ہے۔

وسیم اکرم نے پہلے پاکستان کی اننگز 269 رنز کے جواب میں بھاری برتری کی طرف قدم بڑھاتے ویسٹ انڈین قدموں کو روکا اور محض 55 رنز کے اضافے سے گرنے والی آخری 7 میں سے 6 وکٹیں حاصل کیں اور جب پاکستان نے 4 رنز کے خسارے کے ساتھ دوسری اننگز شروع کی تو سوائے محمد یوسف،جو اس وقت یوسف یوحنا تھے، اور انضمام الحق کے کوئی کھلاڑی قابل ذکر باری نہ کھیل سکا۔ انضی 68 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ یوسف نے 42 رنز بنائے ۔

ویسٹ انڈیز کو مقابلہ جیتنے کےلیے صرف 216 رنز کا ہدف ملا اور محض 3 وکٹوں کے نقصان پر 144 رنز تک پہنچنے کے بعد کوئی قوت ویسٹ انڈیز کو جیتنے سے روکتی دکھائی نہ دیتی تھی۔ وسیم اکرم نے چوتھے دن کے آخری اوور میں ویول ہائنڈز کو بولڈ کیا تو پاکستان نے کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن بازی اب بھی ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں میں تھی جسے میچ کے آخری دن صرف 72 مزید رنز کی ضرورت تھی اور اس کی 6 وکٹیں باقی تھیں۔

پھر آخری دن شروع ہوا، یعنی ٹھیک 14 سال پہلے آج ہی کا دن 29 مئی، تو وسیم اکرم اپنے عروج پر تھے اور امپائر اپنی نااہلی کے ریکارڈ توڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ رامنریش سروان، رڈلے جیکبز، فرینکلن روز، کرٹلی ایمبروز اور کورٹنی واش سبھی بلے بازوں کو پورے پورے مواقع دیے گئے۔ایل بی ڈبلیو کی درجنوں اپیلوں کے بعد کوئی ایک یا دو کھلاڑی آؤٹ دیے گئے۔

میچ کا یادگار ترین لمحہ وہ تھا جب آخری روز کھانے کے وقفے کے بعد وسیم اکرم نے پہلا اوور کرایا۔ ایک ہی اوور میں انہوں نے حریف کپتان جمی ایڈمز کو تین مرتبہ آؤٹ کیا، پہلے ایل بی ڈبلیو اور دو مرتبہ وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ، لیکن دونوں مرتبہ امپائر بلی ڈاکٹروو نے انگلی نہ اٹھائی اور یوں ویسٹ انڈیز کو ایک اینڈ سے ایسا مستند بلے باز آخر تک میسر رہا جو مقابلہ بچانے کے لیے کافی تھا۔ اس اوور کی آخری گیند پر اتنا واضح آؤٹ تھا کہ کمنٹیٹر مائیکل ہولڈنگ بول پڑے کہ گیند بلے کے کنارے کو تو نہیں چھوئی، لیکن اس کے عین درمیان سے ضرور لگی ہے۔

جب ویسٹ انڈیز فتح سے 17 رنز کے فاصلے پر تھا تو وسیم اکرم نے ایک خوبصورت گیند پر ریون کنگ کو کلین بولڈ کردیا اور معاملے کو صرف ایک گیند تک پہنچا دیا۔ ویسٹ انڈیز میں آخری مقابلہ کھیلنے والے اور سب سے زیادہ مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے کے ریکارڈ کے حامل کورٹنی واش میدان میں آئے اور آتے ہی امپائر نے ثقلین مشتاق کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو سے بچا لیے۔

صرف امپائر ہی نہیں بلکہ خود پاکستان نے بھی تاریخی فتح کا نادر موقع ضائع کیا۔ جب ویسٹ انڈیز جیت سے 14 رنز دور تھا تو ثقلین مشتاق نے رن آؤٹ کا آسان ترین موقع ضائع کیا حالانکہ دونوں بلے باز ایک اینڈ پر جمع ہوگئے تھے لیکن 'ثقی' فیلڈر کی پھینکی گئی تھرو پکڑنے میں ناکام رہے اور ویسٹ انڈیز کو آخری وار کرنے کا آخری موقع مل گیا۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے بالآخر جمی ایڈمز نے فاتحانہ رن دوڑ کر اس یادگار مقابلہ کا خاتمہ کردیا اور اس کے بعد ویسٹ انڈیز نے تاریخی جشن منایا۔

یہ معین خان کی زیر قیادت پاکستان کی دو مایوس کن ترین شکستوں میں سے ایک تھی، سینٹ جانز میں جیتی ہوئی بازی گنوانے کے بعد پاکستانی اسی سال دسمبر میں کراچی میں انگلینڈ کے ہاتھوں ٹیسٹ مقابلہ ہارا، جو کرکٹ تاریخ کے یادگار ترین مقابلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر یہ تحریر آپ نے پڑھ لی ہے تو کراچی کے اس مقابلے کا احوال بھی پڑھتے جائیں۔