سعید اجمل نے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کپتانی ٹھکرادی

5 1,017

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء میں قبل از وقت اخراج کے بعد جب محمد حفیظ نے قیادت سے استعفیٰ دیا، تواسی روز سے پاکستان کرکٹ میں اس بحث نے جنم لیا کہ اب اگلا قائد کون ہوگا۔ کچھ کی نظریں تجربہ کار کھلاڑیوں پر گئیں تو چند نوجوانوں کو آزمانے کے خواہاں تھے۔ گو کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی کے لیے ہونے والی رسہ کشی میں یہ بحث کہیں دب گئی ہے لیکن آج سعید اجمل کے بیان نے اس کو ایک مرتبہ پھر زبان زد عام کردیا ہے۔ اسپنر کا کہنا ہے کہ انہیں قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت پیش کی گئی تھی لیکن وہ 'پرسکون' کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں اس لیے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔

پاکستان کی قیادت کرنا بہت مشکل کام ہے، میں اپنا سکون خراب نہیں کرنا چاہتا، سعید اجمل (تصویر: AP)
پاکستان کی قیادت کرنا بہت مشکل کام ہے، میں اپنا سکون خراب نہیں کرنا چاہتا، سعید اجمل (تصویر: AP)

معروف کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کو دیے گئے انٹرویو میں سعید اجمل نے کہا کہ وہ کپتانی کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتے، اور سمجھتے ہیں کہ وہ بحیثیت ٹیم ایک اچھے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے پیشکش کو قبول نہ کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ہر شکست کی ذمہ داری کپتان پر ڈالی جاتی ہے۔ محمد حفیظ ہی کو دیکھ لیجیے۔ حالیہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شکست کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، کیوں؟ کیونکہ سب انہی کو ذمہ دار سمجھ رہے تھے۔ اس لیے جب مجھ سے رابطہ کیا گیا تو میں نے منع کردیا۔ یہ عہدہ قبول کرتے ہوئے مجھے جھجک بھی محسوس ہوئی۔

مصباح الحق کی قیادت کے حوالے سے سعید اجمل نے کہا کہ اگر حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مصباح الحق عمران خان سے بھی اچھے کپتان ہیں۔ انہوں نے پاکستان کرکٹ تاریخ کے مشکل ترین دور میں یہ ذمہ داری نبھائی۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کے باوجود انہیں سراہا نہیں گیا۔ وہ سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین ہیں لیکن پھر بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بحیثیت بیٹسمین لوگوں کو ان سے شکایت ہے کہ وہ حد درجہ محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، بہت ٹک ٹک کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ دوسرے اینڈ سے جب وکٹ پر وکٹ گرے گی تو مصباح کے پاس اور کون سا راستہ ہے کہ وہ اطمینان سے اور دھیان سے کھیلیں۔

سعید اجمل نے کہا کہ اگر باؤلر کی حیثیت سے دیکھیں تو جب تک مصباح کریز پر موجود ہوتے ہیں، مجھے اطمینان ہوتا ہے کہ اتنے رنز بن جائیں گے جن کا ہم باؤلرز دفاع کرپائیں گے۔

بہرحال، اب دیکھنا یہ ہے کہ رواں سال اکتوبر میں جب پاکستان آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ٹی ٹوئنٹی کھیلے گا تو اس کی قیادت کس کے پاس ہوگی۔ یاد رہے کہ اگست میں دورۂ سری لنکا میں پاکستان نے کوئی ٹی ٹوئنٹی مقابلہ نہیں کھیلنا۔