[آج کا دن] پاکستان کا میراڈونا، وسیم اکرم

14 1,099

انگلش پریمیئر لیگ دنیا کی سب سے بڑی اور مشہور ترین فٹ بال لیگ ہے اور اب تو ہر پروفیشنل فٹ بالر کے لیے یہ اعزاز ہوتا ہے کہ وہ ای پی ایل میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے۔ لیکن اس شاندار لیگ کے باوجود عالمی فٹ بال میں انگلستان کی کارکردگی نمایاں نہیں۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ 1966ء میں اپنے ہی میدانوں پر جیتے گئے ورلڈ کپ کے علاوہ وہ کبھی عالمی اعزاز نہیں جیت سکا، بلکہ ورلڈ کپ تو کجا کبھی یورپین چیمپئن بھی نہیں بنا۔ اسی طرح انگلستان کرکٹ کی جنم بھومی ہے۔ 'شرفاء کا کھیل' یہیں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور پروان چڑھتے ہوئے ہر اس ملک میں پہنچا جہاں عظیم برطانوی سلطنت کے قدم موجود تھے۔آسٹریلیا سے لے کر ویسٹ انڈیز تک اور جنوبی افریقہ سے بھارت تک ، لیکن انگلستان کبھی کرکٹ ورلڈ کپ نہیں جیت پایا۔

میکسیکو میں کھیلے گئے 1986ء کے فٹ بال ورلڈ کپ میں ارجنٹائن کے خلاف کوارٹر فائنل میں ڈیاگو میراڈونا کے شہرۂ آفاق گول نے انہیں اعزاز کی دوڑ سے باہر کیا تو محض چھ سال بعد 1992ء میں کرکٹ کے میدانوں میں انگلستان عالمی اعزاز کے بہت قریب پہنچا لیکن اس مرتبہ وسیم اکرم کی دو جادوئی گیندوں نے اس کے خواب چکناچور کردیے۔

جس گول میں بقول میراڈونا "خدائی ہاتھ" تھا، بالکل وہی "خدائی ہاتھ" ملبورن میں بھی کارفرما دکھائی دیا ۔ وسیم اکرم کی ایک گیند پہلے ایلن لیمب کی وکٹ میں جاگھسی اور اگلی گیند کرس لوئس کے بیٹ اور پیڈ کے درمیان سے ہوتی ہوئی آف اسٹمپ کا بالائی حصہ اڑا گئی۔ جس طرح میراڈونا کو "اس" گول نے تاریخی مقام عطا کیا، وسیم اکرم کو بھی وہ ان دو گیندوں نے وہ لافانی حیثیت عطا کی، جس کی بدولت آج تاریخ کے عظیم ترین باؤلرز میں شمار ہوتے ہیں۔

لیکن، 1966ء میں آج ہی کے روز یعنی 3 جون کو پیدا ہونے والے وسیم اکرم نے اپنے کیریئر کی بالکل ابتدائی مراحل ہی میں ظاہر کردیا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے اور عمران خان کی زیر نگرانی ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور پھر وہ دنیا کے خطرناک ترین باؤلرز میں شمار ہونے لگے۔ وسیم نے ڈنیڈن میں کھیلے گئے محض اپنے دوسرے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 10 وکٹوں کی شاندار کارکردگی دکھائی اور تن تنہا پاکستان کو جیت کے قریب پہنچا۔ گو کہ نیوزی لینڈ دو وکٹوں سے مقابلہ اور اس کے ساتھ سیریز بھی جیت گیا لیکن یہ دورہ پاکستان کے لیے بہت اہم ثابت ہوا کیونکہ اسی کے نتیجے میں وسیم اکرم جیسا باؤلر دریافت ہوا۔

نومبر 1989ء میں نہرو کپ کے فائنل میں ویوین رچرڈز کو آخری اوور کی پانچویں گیند پر چھکا رسید کرنے اور اگلے سال شارجہ میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف 49 رنز اور ہیٹ ٹرک کے ذریعے پاکستان کو جتوانے کے بعد وسیم کے کیریئر کا یادگار ترین لمحہ آن پہنچا۔ 1992ء کے ورلڈ کپ فائنل میں انگلستان کے خلاف 18 گیندوں پر 33 رنز اور پھر 49 رنز کے عوض 3 وکٹوں کی کارکردگی نے پاکستان کو عالمی چیمپئن بنا دیا۔ وسیم اکرم کو ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا اور پھر بائیں ہاتھ کے باؤلر کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔

wasim-akram

عالمی چیمپئن بننے کے بعد انگلستان کو اسی کے دیس میں شکست دینے کے تاریخی کارنامے میں وسیم اکرم کا کردار کلیدی تھا۔ لارڈز میں 138 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جب پاکستان کے 8 کھلاڑی صرف 95 رنز پر آؤٹ ہوگئے تھے تو یہ وسیم اکرم ہی تھے جنہوں نے 6 وکٹیں حاصل کرنے کے بعد قیمتی ترین 45 رنز بنائے اور پاکستان کو دو وکٹوں کی فتح سے ہمکنار کیا۔ اس سیریز میں وسیم اکرم نے 4 مقابلوں میں 21 وکٹیں حاصل کیں اور ساتھی باؤلر وقار یونس اور انگلستان کے کپتان گراہم گوچ کے ہمراہ سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر 1993ء میں مشہور زمانہ جریدے 'وزڈن' نے انہیں سال کا بہترین کھلاڑی قرار دیا۔

پھر 1994ء کے اوائل میں دورۂ نیوزی لینڈ میں صرف تین مقابلوں میں 25 وکٹیں لینے کے بعد بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچانے کا سلسلہ کیریئر کے اختتام تک نہ تھما بلکہ اس دوران وسیم اکرم نے کھل کر اپنی بیٹنگ صلاحیت بھی دکھائی۔ اکتوبر 1996ء میں زمبابوے کے خلاف ڈبل سنچری تک بنا ڈالی۔

دوسری جانب ایک روزہ کرکٹ میں بھی وسیم اکرم سب سے نمایاں باؤلر رہے اور 500 وکٹوں کا ہندسہ عبور کرنے والے پہلے باؤلر تھے۔ جبکہ دونوں طرز کی کرکٹ میں دو مرتبہ ہیٹ ٹرک کرنے والے بھی آج تک واحد کھلاڑی ہیں۔

آسٹریلیا کے بیٹسمین مارک ٹیلر نے ایک بار کہا تھا کہ وسیم اکرم مسلسل چار گیندوں کو ایک ہی جگہ پر پھینک کر اس سے چار مختلف انداز میں بیٹسمین کو حیران کر سکتے ہیں اور یہ بات مارک ٹیلر سے بھی زیادہ بہتر انداز میں راہول ڈریوڈ جانتے ہوں گے۔ 1999ء میں چنئی میں کھیلے گئے یادگار ترین ٹیسٹ مقابلے میں وسیم نے راہول ڈریوڈ کو ایک ایسی گیند پر بولڈ کیا جو شاہکار ٹھہرائے جانے کے قابل ہے۔ اگر شین وارن کی مائیک گیٹنگ کو بولڈ کرنے والی گیند 'صدی کی بہترین گیند' شمار ہوسکتی ہے تو وسیم اکرم کی یہ گیند کسی بھی 'تیز باؤلر کی صدی کی بہترین گیند' قرار دی جانی چاہیے۔

وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی 90ء کی دہائی کے بیٹسمینوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھی۔ اور ان دونوں سے بچنے کے لیے چند کھلاڑیوں نے لیجنڈری حیثیت حاصل ہونے کے باوجود بچگانہ حرکتیں کیں جیسا کہ شین وارن۔ پاکستان کے خلاف ایک سیریز سے وہ محض اس لیے دستبردار ہوگئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وسیم اکرم اور وقار یونس اپنی یارکرز کے ذریعے ان کے ٹخنے توڑ دیں گے۔

وسیم اکرم کے کیریئر کو میچ فکسنگ اسکینڈل سے سخت دھچکا پہنچا۔ معاملے کی تحقیقات کرنے والے جسٹس قیوم کمیشن نے انہیں کپتانی سمیت کسی بھی اہم عہدے کے لیے نااہل قرار دیا، البتہ وہ سلیم ملک کی طرح پابندی کی زد میں نہیں آئے اور بالآخر ورلڈ کپ 2003ء کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔

ہوسکتا ہے کہ بائیں ہاتھ سے ایسی ہی جادوئی باؤلنگ کرنے والا کوئی دوسراکھلاڑی دنیائے کرکٹ میں جنم لے، لیکن جو لازوال مقام وسیم اکرم کو حاصل ہوچکا ہے، اسے پانا کسی بھی باؤلر کے لیے تقریباً ناممکن ہوگا۔