”ایکس فیکٹر“ محمد عرفان پاکستان کے لیے ضروری

4 1,093

تیز باؤلنگ پاکستان کرکٹ کا خاصہ رہی ہے۔ ابتداء سے لے کر آج تک اس سرزمین پر دنیائے کرکٹ کے بہترین تیز باؤلرز نے جنم لیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس جنید خان، عمر گل اور محمد طلحہ کی صورت میں اچھے فاسٹ باؤلر ضرور موجود ہیں مگر پیس اٹیک میں ”ایکس فیکٹر“ بہت ضروری ہوتا ہے۔ فضل محمود کے عہد میں خان محمد بھی تھے، عمران خان کے عہد میں سرفراز نواز بھی، وسیم اکرم اور وقار یونس کے زمانے میں عاقب جاوید بھی، شعیب اختر کے دور میں عمر گل بھی، اور ان میں سے کوئی بھی باؤلر صلاحیتوں میں کم نہ تھا لیکن ”ایکس فیکٹر“ کی وجہ سے ہی پاکستان کو حریف پر برتری حاصل ہوتی تھی اور اس وقت اس حوالے سے جو کمی موجود ہے اسے صرف محمد عرفان ہی پورا کرسکتے ہیں۔

پاکستان کے لیے اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہ ہوگی کہ وہ ورلڈ کپ میں محمد عرفان (دائیں) کی خدمات سے محروم ہوجائے (تصویر: AFP)
پاکستان کے لیے اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہ ہوگی کہ وہ ورلڈ کپ میں محمد عرفان (دائیں) کی خدمات سے محروم ہوجائے (تصویر: AFP)

غیر معمولی قامت کے حامل محمد عرفان ایک عرصے سے قومی ٹیم سے باہر ہیں۔ ان کا بے دریغ ہر طرز کی کرکٹ میں استعمال ان کی شدید انجری کا سبب بنا۔ اب بقول عرفان کہ وہ مکمل طور پر فٹ ہو چکے ہیں اور لاہور میں جاری قومی تربیتی کیمپ میں بھرپور شرکت بھی کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سو فیصد فٹ ہیں اور قومی ٹیم کی نمائندگی کے لیے تیار ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عرفان کا کہنا تھا کہ وہ محدود اوورز کی کرکٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں، جس کے بعد وہ فیصلہ کریں گے کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے فٹ ہیں یا نہیں۔ محمد عرفان کی جسمانی ساخت، طویل قد اور بڑھتی ہوئی عمر اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان کا بے تحاشہ استعمال کیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل محمد عرفان کو غیر سازگار کنڈیشنز اور وکٹوں پر کھلا کر ضائع کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اب اس مشق سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ میں محمد عرفان کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی۔

محمد عرفان پہلے ہی انجری کی وجہ سے ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے اہم ایونٹس سے محروم ہوچکے ہیں مگر اب وہ ہر قیمت پر ورلڈ کپ کھیلنا چاہتے ہیں۔ قومی سلیکشن کمیٹی کی بھی یہی حکمت عملی ہونی چاہیے کہ اگلے سال ہونے والے اہم ٹورنامنٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد عرفان کو استعمال کیا جائے۔ دورۂ سری لنکا اور آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں عرفان کا استعمال دھیان سے کرنا ہوگا۔ دورۂ سری لنکا اگست میں ہوگا، جب بحر ہند کے اس جزیرے میں شدید گرمی اور حبس کا راج ہوتا ہے اور فاسٹ باؤلرز کے لیے کنڈیشنز بہت خراب ہوتی ہیں۔ سری لنکا کے خلاف اس سیریز میں عرفان کو ٹیسٹ میچز کھلانے کا خطرہ ہرگز مول نہیں لینا چاہیے اور اگر فاسٹ باؤلر کی فٹنس چیک کرنی ضروری ہو تو ون ڈے مقابلوں میں انہیں آزمایا جائے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات کی صحرائی گرمی میں نیوزي لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف بھی عرفان کو محدود اوورز ہی کے مقابلے کھلائے جائیں تاکہ فاسٹ باؤلر مکمل فٹ صورت میں ورلڈ کپ میں شریک ہوسکے۔

ورلڈ کپ 2015ء آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا جائے گا جہاں محمد عرفان قہر ڈھا سکتا ہے۔ یہاں کی وکٹوں پر ملنے والا باؤنس عرفان کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا اور اگر آنے والے مہینوں میں اسے احتیاط سے استعمال کیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ عرفان ورلڈ کپ میں پاکستان کا سب سے خطرناک کھلاڑی بن کر ابھرے۔

اس وقت پاکستانی ٹیم کی خوش قسمتی ہے کہ وقار یونس قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں جو خود ایک عظیم فاسٹ باؤلر رہ چکے ہیں اور فاسٹ باؤلرز کی انجریز اور مسائل کو اچھی طرح سمجھتےہیں۔ اس لیے وقار یونس پر یہ لازم ہوگا کہ وہ کپتان کےساتھ مشاورت کے بعد محمد عرفان کو کم سے کم میچز میں استعمال کریں تاکہ دنیا کا سب سے طویل القامت فاسٹ باؤلر ورلڈ کپ سے پہلے مکمل طور پر فٹ اور تازہ دم ہو۔

اگر سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کی غلط پالیسیوں کے سبب محمد عرفان کو ورلڈ کپ سے قبل انجریز نے جکڑ لیا تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ عرفان کے بغیر دو بڑے ایونٹس میں پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ کا جو حال ہوا، وہ سب کے سامنے ہے اس لیے اب محمد عرفان کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط ضروری ہے۔