'سپر فٹ' یونس خان کا مرکزی معاہدہ، ناقدین کا ہنگامہ

3 1,027

ٹیم میں مستقل جگہ نہ پانے والے نوجوان جنید خان کو پہلے زمرے میں جگہ دینے اور تجربہ کار یونس خان کی کیٹگری 'بی' میں منتقلی نے ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ لاہور کی تپتی ہوئی گرمی میں ایک ماہ تک ہونے والے تربیتی کیمپ میں 'سپر فٹ' قرار دیے گئے یونس خان کی تنزلی کے بعد ناقدین کی توپوں کا رخ ایک مرتبہ پھر بورڈ کی جانب ہوگیا ہے۔

اگر یونس خان 'سپر فٹ' ہیں تو ان کے مستقبل کو غیر یقینی قرار دے کر 'دوسرے درجے' میں دھکیلنا زیادتی ہے (تصویر: AP)
اگر یونس خان 'سپر فٹ' ہیں تو ان کے مستقبل کو غیر یقینی قرار دے کر 'دوسرے درجے' میں دھکیلنا زیادتی ہے (تصویر: AP)

اس حوالے سے جب پی سی بی کے ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ زمرہ الف یعنی کیٹگری 'اے' کے لیے تین معیارات مقرر کیے گئے تھے کہ یا تو کھلاڑی کپتان ہو، یا پھر تینوں طرز کی کرکٹ ٹیم کا حصہ ہو یا پھر کم از کم 50 ٹیسٹ اور 200 ون ڈے مقابلے کھیل چکا ہو۔ اس زمرے میں شامل پانچوں کھلاڑی کسی ایک نہ ایک معیار پر پورا اترتے ہیں۔ محمد حفیظ اور سعید اجمل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جبکہ جنید خان تینوں طرز کی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بورڈ کے ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکر خان نے معاہدوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ کھلاڑیوں کو فارم اور کارکردگی، فٹ رہنے کی سطح اور مستقبل میں کھیلنے کے امکانات کی بنیاد پر مختلف زمروں میں معاہدوں سے نوازا گیاہے۔ شاید 'مستقبل کے امکانات' کی ہی شرط تھی جو یونس خان کو زمرہ 'ب' میں لے گئی اور جنید خان زمرہ 'الف' کے کھلاڑی قرار پائے۔

علاوہ ازیں سلیکشن کمیٹی میں موجود ذرائع نے ایک انوکھا انکشاف کیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے پہلے اجلاس میں یونس خان کو بھی کیٹگری 'اے' میں رکھنے کی تجویز دی تھی اور ساتھ ہی یہ طے پایا تھا کہ کمیٹی کا حتمی اجلاس دوبارہ منعقد ہوگا لیکن چیف سلیکٹر معین خان نے بغیر صلاح و مشورے کے اپنی مرضی سے ردوبدل کیا اور جو حتمی فہرست جاری ہوئی ہے اس پر کمیٹی کے تمام اراکین کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ صرف یونس خان بلکہ متعدد دیگر کھلاڑیوں کو بھی ایک کے بجائے دوسرے زمرے میں کانٹریکٹ دیے گئے۔