پی سی بی کے سوتیلے پن کا شکار، محمد عرفان

3 1,061

چند روز قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے سال 2013ء کے لیے مرکزی معاہدوں (سینٹرل کانٹریکٹس) کا اعلان کیا تو گویا اک نئے ہنگامے کو دعوت دے دی۔ تجربہ کار بلے باز یونس خان کی زمرہ اول سے زمرہ دوئم میں تنزلی نے اتنا بڑا تنازع کھڑا کردیا ہے کہ بورڈ کے عہدیداران تک پس پردہ صفائیاں پیش کرتے پھر رہے ہیں۔ لیکن معاہدوں کے اس پورے معاملے میں ایک کھلاڑی سے صریح زیادتی کی گئی، اس حوالے سے کسی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ہم بات کر رہے ہیں تیز باؤلر محمد عرفان کی جو شاید اب پاکستان کرکٹ تاریخ کے بدنصیب ترین کھلاڑیوں میں شمار ہوسکتے ہیں۔

سال 2013ء میں صرف 8 ٹیسٹ اور 7 ون ڈے کھیلنے والے 36 سالہ یونس خان کو درجہ اول نہ دینا زیادتی ہے، لیکن گیارہ ماہ میں 36 مقابلے کھیلنے والے عرفان کو چوتھے درجے میں معاہدہ دینا ہر گز نہیں (تصویر: Getty Images)
سال 2013ء میں صرف 8 ٹیسٹ اور 7 ون ڈے کھیلنے والے 36 سالہ یونس خان کو درجہ اول نہ دینا زیادتی ہے، لیکن گیارہ ماہ میں 36 مقابلے کھیلنے والے عرفان کو چوتھے درجے میں معاہدہ دینا ہر گز نہیں (تصویر: Getty Images)

عرفان کے ساتھ روا رکھے گئے سوتیلے سلوک کی داستان اتنی ہی پرانی ہے، جتنا کہ ان کا کیریئر۔ 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعد انگلستان کے خلاف ہونے والی مشکل ترین سیریز میں انہیں طلب کیا گیا اور اس امر کو قطع نظر رکھتے ہوئے کہ وہ پاکستان سے برطانیہ تک کا طویل سفر کرنے کے بعد پہنچے ہیں اور انہیں آرام کی ضرورت ہے، فوری طور پر انہیں دو ون ڈے مقابلے کھلا دیے گئے۔ تھکاوٹ سے چور اور بین الاقوامی کرکٹ کا تناؤ ان کی کارکردگی پر اثرانداز ہوا اور دو مایوس کن میچز کے بعد ان پر قومی ٹیم کے دروازے بند کردیے گئے۔ یہاں تک کہ تقریباً ڈھائی سال کے عرصے کے بعد انہیں دورۂ بھارت کے لیے ٹیم میں جگہ مل پائی۔ یہ تو عرفان جیسا باصلاحیت باؤلر تھا جس نے اتنے بھیانک آغاز کے بعد بھی حوصلہ مندی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا، کوئی اور ہوتا تو ہمت چھوڑ بیٹھتا۔ بہرحال، اس مرتبہ عرفان نے موقع کو دانتوں سے پکڑ لیا اور اپنی بہترین کارکردگی کے ذریعے ٹیم میں جگہ مضبوط کرلی۔

لیکن ۔۔۔ بورڈ نے اس 'سونے کی مرغی' کے تمام 'انڈے' ایک ساتھ ہی حاصل کرنے کی روش اختیار کی اور تمام طرز کی کرکٹ میں عرفان کا بے دریغ استعمال کیا۔ انہیں صرف 11 مہینوں کے عرصے میں 36 بین الاقوامی مقابلے کھلادیے گئے جن میں 4 ٹیسٹ، 27 ون ڈے اور 5 ٹی ٹوئنٹی مقابلے شامل تھے۔ 7 فٹ سے زیادہ کی غیر معمولی قامت رکھنے والے محمد عرفان کو اپنی مخصوص جسمانی ساخت کی وجہ سے جتنا احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت تھی، ان سے اتنی ہی بے پروائی برتی گئی۔ یہاں تک کہ نومبر 2013ء میں وہ زخمی ہوکر قومی ٹیم سے ایسے باہر ہوئے کہ ابھی تک واپس نہیں آ سکے۔ کئی ماہرین کی نظر میں ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی شکست کا سبب محمد عرفان کی عدم موجودگی تھا۔

جب سال 2013ء کی کارکردگی کی بنیاد پر نئے سال کے لیے مرکزی معاہدے دینے کی باری آئی تو سال بھر میں صرف 8 ٹیسٹ اور 7 ون ڈے کھیلنے والے یونس خان کی تنزلی سب کی نظروں میں کھٹکی لیکن سال میں 33 مقابلوں میں 50 وکٹیں لینے والے محمد عرفان کو آخری درجے میں معاہدہ دینا کسی کو محسوس نہ ہوا۔

محمد عرفان کو شاید اتنا دکھ اپنے زخمی ہونے پر نہ ہوا ہوگا جتنا کہ کم ترین تنخواہ پانے والے کھلاڑیوں میں شمار ہونے پر۔ صرف 90 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے 16 کھلاڑیوں میں ایسے ایسے بھی شامل ہیں جنہوں نے شاید پچھلے سال میں کل ملا کر بھی اتنے مقابلے کھیلے ہوں جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکے۔ بلاول بھٹی، شرجیل خان، فواد عالم، احسان عادل، وہاب ریاض، رضا حسن، عمر امین، حارث سہیل، راحت علی، شان مسعود، محمد طلحہ، انور علی، صہیب مقصود، سرفراز احمد اور بلاول بھٹی۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے اسی زمرے میں معاہدے پائے ہیں جس میں محمد عرفان کو شمار کیا گیا ہے۔ جبکہ ان سے اگلے درجے یعنی کیٹگری 'سی' میں معاہدہ پانے والوں میں سال 2013ء میں 8 میچز کھیلنے والے عبد الرحمٰن، 5 مقابلے کھیلنے والے خرم منظور اور 8 مقابلوں میں حصہ لینے والے اظہر علی شامل ہیں۔

اس زمرے میں شمار ہونے پر محمد عرفان کو جو ماہانہ تنخواہ دی جائے گی کہ وہ پاکستان کی ان 8 خواتین کھلاڑیوں سے بھی کم ہے جو درجہ اول میں معاہدہ پاچکی ہیں یعنی کہ محمد عرفان جیسا پائے کا کھلاڑی خاتون کھلاڑیوں کی جتنی اہمیت کا بھی حقدار نہ ٹھیرا، یا للعجب!