کیا یہ صرف ”غلطی“ تھی؟

1 1,102

مملکت خداداد پاکستان میں بہت کچھ ”غلط“ ہے لیکن غلطی کوئی نہیں مانتا، بلکہ کچھ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ غلطی کو”کارنامہ“ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غلطیوں کا تسلسل قائم ہے اور شاید مستقل جاری ہی رہے۔ گزشتہ دنوں یونس خان کو سینٹرل کانٹریکٹ میں اے کیٹیگری میں شامل نہ کرنا پاکستان کرکٹ بورڈ کا نہایت غلط فیصلہ تھا، مگر اس کو منصفانہ قرار دینے کے لیے بھی تاویلیں گڑھی گئیں اور بورڈ کی سہ رکنی کمیٹی نے دو مرتبہ سینٹرل کانٹریکٹ کا پیمانہ تک تبدیل کیا تاکہ کسی طرح ثابت کیا جا سکے کہ یونس خان کو پہلے درجے میں سینٹرل کانٹریکٹ نہ دینا بالکل درست فیصلہ تھا۔

یونس خان کی تنزلی اور پھر بحالی کا معاملہ محض غلطی نہیں کہ اسے باآسانی معاف کردیا جائے (تصویر: AFP)
یونس خان کی تنزلی اور پھر بحالی کا معاملہ محض غلطی نہیں کہ اسے باآسانی معاف کردیا جائے (تصویر: AFP)

یہ اعلان ہونےکے چند روز تک تو چیئرمین پی سی بی خاموش بیٹھے رہے جبکہ میڈیا بورڈ کے بخیے ادھیڑتا رہا اور جب ابلاغی توپوں کی گھن گرج میں کچھ کمی آئی تو نجم سیٹھی نے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے یونس خان کو اے کیٹیگری میں شامل کردیا۔ وجہ صرف یہ بتائی گئی کہ اسٹار بیٹسمین کو بی کیٹیگری میں شامل کرنا محض ایک غلطی تھی، جس کا ازالہ کردیا گیا ہے۔

کیا یونس خان کو بی کیٹیگری میں شامل کرنا صرف ایک ”غلطی“ تھی ؟اور اگر یہ واقعی غلطی تھی تو اتنی بڑی غلطی کرنے والوں کو کیا سزا دی گئی ؟ خراب کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو تو جرمانے کی صورت میں سزا ملے مگر اتنی بڑی غلطیاں کرنے والوں کو باز پرس نہ ہو، جنہوں نے ایک سرفہرست کھلاڑی کی تذلیل کی کوشش کی؟؟ نجم سیٹھی اب بھی اپنی بنائی گئی کمیٹی کا دفاع کررہے ہیں کہ ”ذاکر خان، معین خان اور محمد اکرم پر مشتمل کمیٹی نے قوانین وضع کرنے میں عمدہ کام کیا مگر ان کے بنائے گئے قوانین تمام پہلوؤں خاص طور پر فٹنس اور سابقہ کارکردگی کا احاطہ نہیں کررہےتھے جس کی وجہ سے یونس خان جیسے اسٹار کھلاڑی کو اے کیٹیگری کیلئے نظر انداز کردیا گیا“۔

نجم سیٹھی نے یونس خان کو اے کیٹیگری میں شامل کرنے کیلئے قانون میں جو ترمیم کی ہے اس کے مطابق اگر کوئی کھلاڑی تینوں طرز کی کرکٹ میں مجموعی طور پر 300 سے زائد میچز کھیل چکا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے قومی ٹیم کی کپتانی بھی کی ہو تو وہ اے کیٹیگری میں شامل ہونے کا حقدار ہے۔پی سی بی کی اس نئی کسوٹی پر سابق کپتان شعیب ملک بھی پورا اترتا ہے جو تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی کپتانی کرنے کے علاوہ مجموعی طور پر 307انٹرنیشنل میچز بھی کھیل چکا ہے۔ پی سی بی کی نئی کسوٹی میں گزشتہ برس کی پرفارمنس کو معیار نہیں بنایا گیا اس لیے اب بورڈ پر لازم ہے کہ وہ شعیب ملک کو بھی مرکزی معاہدوں کے زمرہ اول کا حصہ بنائے۔ عبدالرزاق ایک فارمیٹ میں کپتانی کرنے کےساتھ ساتھ پاکستان کیلئے مجموعی طور پر 343 میچز کھیل چکا ہے اس لیے اسٹار آل راؤنڈر کو بی کیٹیگری میں تو جگہ دی ہی جاسکتی ہے۔

بورڈ سربراہ نے اپنی بنائی گئی کمیٹی کی نااہلی کو تسلیم کرنے کے بجائے اب جو نئے قواعد وضع کردیے ہیں، ان سے بورڈ مزید مشکلات سے دوچار ہوجائے گا کیونکہ مزید کئی سینئر کھلاڑی بھی اے کیٹگری میں یا سینٹرل کانٹریکٹ کے کسی بھی زمرے میں شامل ہونے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ تجربے کی بنیاد پر مرکزی معاہدے کا طریقہ اب پرانا ہوچکا ہے اور یہ خاصا ناکام بھی رہا ہے۔ سینئرز کا احترام ضرور کیا جائے لیکن مرکزی معاہدے کے لیے صرف اور صرف کارکردگی اور فٹنس ہی کو پیمانہ بنایا جائے تو بہتر ہوگا۔ معین خان، ذاکر خان اور محمد اکرم پر مشتمل کمیٹی نے یونس خان کو درجہ دوئم میں شامل کرنے جو فاش غلطیکی تھی، اس پر جواب طلبی بھی ان تینوں سے ہونی چاہیے لیکن اگر سابقہ کارکردگی اور تجربے کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو نوازنے کا سلسلہ چل نکلا تو اس کے اچھے نتائج مرتب نہیں ہوں گے۔ ایک غلطی کو سدھارنے کے لیے دوسری غلطی کرنا عقلمندی نہیں اور یونس کا یہ معاملہ محض ایک غلطی نہیں کہ جسے آسانی سے معاف کردیا جائے۔