انگلستان-سری لنکا ٹیسٹ سیریز، تشنگی باقی رہ گئی

0 1,039

محدود اوورز کی کرکٹ نے ٹیسٹ کو بہت نتیجہ خیز بنا دیا ہے بلکہ اب بیشتر مقابلے سنسنی خیزی کی حدوں کو توڑ رہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں چند ایسے ٹیسٹ مقابلے کھیلے گئے ہیں جو نتیجے سے قطع نظر تاریخ کے بہترین مقابلوں میں شمار ہونے کے لیے کافی ہیں۔ زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں حالیہ بھارت-جنوبی افریقہ جوہانس برگ ٹیسٹ، جسے تاریخ کے بہترین ڈرا مقابلوں میں شمار کیا جا سکتا ہے، پھر آسٹریلیا-جنوبی افریقہ ایڈیلیڈ ٹیسٹ بھی ایسا ڈرا مقابلہ کہا جا سکتا ہے لیکن شاید ہی کبھی کسی نے پے در پے ایسے انتہائی سنسنی خیز مقابلے دیکھے ہوں جو آخری گیند تک تمام نتائج دے سکتے تھے۔

اتنے شاندار مقابلوں کے بعد تشنگی باقی رہ گئی کہ کاش تیسرا ٹیسٹ بھی طے ہوتا، خاص طور پر انگلینڈ کو تو یہ کمی بہت محسوس ہورہی ہوگی (تصویر: Getty Images)
اتنے شاندار مقابلوں کے بعد تشنگی باقی رہ گئی کہ کاش تیسرا ٹیسٹ بھی طے ہوتا، خاص طور پر انگلینڈ کو تو یہ کمی بہت محسوس ہورہی ہوگی (تصویر: Getty Images)

لارڈز میں جب سری لنکا آخری دن کے آخری اوور میں داخل ہوا تو اسے پہلی ہی گیند پر اپنی نویں وکٹ گنوانا پڑیں۔ انگلستان فتح سے محض ایک قدم کے فاصلے پر آ گیا اور پھر وکٹ حاصل ہوجانے کے باوجود امپائر کے فیصلے کے خلاف ریویو نے آخری بلے باز نووان پردیپ کو بچا لیا اور کسی نہ کسی طرح وہ بقیہ تمام گیندیں کھیلنے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں مقابلہ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوا اور اس کے بعد اگلے ہی ٹیسٹ میں بالکل وہی صورتحال سامنے آئی۔ اس مرتبہ انگلستان کو آخری اوور میں اپنی آخری وکٹ بچانی تھی۔ معین علی اور جیمز اینڈرسن تقریباً 20 اوورز سے سری لنکا کے باؤلرز کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے اور آخری اوور کی چار گیندیں بھی اینڈرسن نے کامیابی سے کھیل لیں۔ سیریز بچانا اب صرف دو گیندوں کا کھیل تھا لیکن پانچویں گیند پر پھینکے گئے زبردست باؤنسر نے انگلستان کے خواب چکناچور کردیے۔ اینڈرسن آؤٹ ہوگئے اور دوسرے اینڈ پرمعین علی ایک یادگار سنچری کے ساتھ مایوس کن انداز میں پویلین لوٹے۔

عین ان دنوں میں جب فٹ بال ورلڈ کپ نے پوری دنیاکے کھیلوں کے شائقین کو اپنے سحر میں لپیٹ رکھا ہے یہاں تک کہ خود ان دویادگار مقابلوں کو دیکھنے والے تماشائیوں کی تعداد بھی بہت معمولی رہی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لارڈز اور ہیڈنگلے کے ان ٹیسٹ مقابلوں نے شائقین کی توجہ ایک مرتبہ پھر کرکٹ کی جانب مبذول کرا دی۔ یہ سیریز جتنے زبردست انداز میں کھیلی گئی، اسے ہرگز برابری کی بنیاد پر ختم نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سری لنکا جیت کا مستحق تھا۔ اس نے انگلستان کے مقابلے میں زیادہ محنت کی، سخت ترین مراحل میں کھلاڑیوں نے ٹیم کو سنبھالا اور مضبوط پوزیشن پر لائے۔ اس کے مقابلے میں انگلستان نے بالاتر پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود مقابلے پر اپنی گرفت گنوائیں۔

ویسے دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کے بعد ہمیشہ مایوسی ہی ہوتی ہے۔ انگلستان نے دونوں ٹیسٹ میں جس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا، ضروری تھا کہ یہ سیریز کم از کم تین مقابلوں پر مشتمل ہوتی تاکہ حقیقی فاتح سامنے آتا۔ بہرحال، اب بھی اس کے پاس وقت ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی ان خامیوں پر قابو پائے، بالخصوص بیٹنگ پر، اور بھارت کے خلاف سیریز کی تیاری پکڑے۔ معین علی اور گیری بیلنس کی موجودگی میں اسے دو بہت اچھے نوجوان بیٹسمین میسر آئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایلسٹر کک اور دیگر سینئر بیٹسمین بھی ذمہ داری سنبھالیں۔ امید کی جاتی ہے کہ انگلستان کے اس سیزن میں بالخصوص ٹیسٹ کے یادگار ترین مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔