ڈے-نائٹ ٹیسٹ میچ؟ اچھا مذاق ہے!، کیون پیٹرسن

0 1,107

رات کے اوقات میں ٹیسٹ مقابلہ کھیلنے کا معاملہ جیسے جیسے حقیقت کا روپ دھارتا دکھائی دیتا ہے، اس کے حامی و مخالفین بھی کھل کر سامنے آتے جا رہے ہیں۔ اب سابق انگلش بلے باز کیون پیٹرسن بھی میدان میں آ گئے ہیں جنہوں نے ڈے-نائٹ ٹیسٹ میچ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک مذاق قرار دیا ہے۔

جنوبی افریقی نژاد کیون پیٹرسن نے ٹیسٹ مقابلوں میں نئی جہت متعارف کروانے پر کہا ہے کہ اول تو لوگ اسے دیکھنا ہی نہیں چاہیں گے کیونکہ اس وقت ویسے ہی بہت زیادہ کرکٹ کھیلی جا رہی ہے اور دوسرا یہ کہ اس سے اخراجات میں بھی زبردست اضافہ ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کم کھیلیں تاکہ لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے۔ مصنوعی روشنیوں میں طویل طرز کرکٹ مقابلے کی مخالفت کرتے ہوئے 34 سالہ پیٹرسن نے کہا کہ رات میں پڑنے والی اوس کے باعث باؤلرز کو شدید نقصان ہوگا اور اسپنرز تو شاید باؤلنگ ہی نہ کروا سکیں ۔

104 ٹیسٹ مقابلوں میں انگلستان کی نمائندگی کرنے والے کیون پیٹرسن پر حال ہی میں قومی ٹیم کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے گئے ہیں اور اب وہ صرف کاؤنٹی کرکٹ اور ٹی ٹوئنٹی لیگز تک محدود ہوگئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ان کا زور بجائے ٹیسٹ کے مختصر طرز کی کرکٹ کے فروغ پر دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں کامیاب تجربوں کے بعد اب پہلی بار ڈے-نائٹ کرکٹ منعقد ہونے کا امکان دکھائی دیتا ہے کیونکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے نومبر 2015 میں اولین ڈے-نائٹ ٹیسٹ میچ منعقد کروانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس خبر کے سامنے آتی ہی یہ معاملہ کرکٹ کے حلقوں میں کافی زیر بحث آیا ہوا ہے لیکن کرکٹ آسٹریلیا کی ثابت قدمی کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ایڈیلیڈ یا ہوبارٹ میں سے ایک شہر اولین ڈے-نائٹ ٹیسٹ کی میزبانی کرے گا۔

یاد رہے کہ ڈے-نائٹ مقابلے میں گلابی یا نارنجی رنگ کی گیند استعمال کی جاتی ہے تاہم کھلاڑیوں کی بڑی اکثریت ان رنگوں کی گیندوں سے مانوس نہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ڈے-نائٹ ٹیسٹ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

آسٹریلیا نے گزشتہ علاقائی مقابلوں شیفلڈ شیلڈ سیزن میں گلابی گیند کا استعمال کی تھا لیکن اس کے باوجود آسٹریلین کرکٹرز ایسوسی ایشن اس بات پر فیصلہ نہیں کرپائی کہ آیا نیوزی لینڈ کے خلاف ڈے-نائٹ ٹیسٹ مقابلے میں گلابی گیند استعمال کی جائے یا نہیں۔

گزشتہ سال کے وسط میں پاکستان نے سری لنکا کو ڈے-نائٹ ٹیسٹ میچ کھیلنے کی دعوت دی تھی تاہم سری لنکن کرکٹ بورڈ نے انتظامیہ اور کھلاڑیوں سے مشاورت کے بعد معذرت کرلی تھی۔ سال 2012ء میں جنوبی افریقہ نے بھی ڈے-نائٹ ٹیسٹ میچ کے انعقاد میں پہل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی تاہم اس سمت میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اگلے سال ڈے-نائٹ ٹیسٹ میچز کا خواب پورا ہوپائے گا یا یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے سرخ فیتے کی نذر ہوجائے گا۔