[باؤنسرز] وقار یونس کی مثبت اپروچ!

2 1,080

سبز و سفید ٹی شرٹ پہنے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے، ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر پاکستان کرکٹ ٹیم کو بلندیوں پر لے جانے کی امیدیں لیے وقار یونس قومی ٹیم کے ساتھ وابستہ ہوچکے ہیں۔ سڈنی کے خنک موسم سے لاہور کی گرمیوں میں آنے کے بعد ان کی ترجیح اگلے سال عالمی کپ میں گرین شرٹس کی عمدہ کارکردگی ہے، مگر اس سے قبل انہیں سری لنکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا امتحان پاس کرنا ہوگا۔

وقار یونس کا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مثبت ذہن کے ساتھ کام کرنے کا عزم پاکستان کرکٹ کے لیے نیک شگون ہے (تصویر: AFP)
وقار یونس کا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مثبت ذہن کے ساتھ کام کرنے کا عزم پاکستان کرکٹ کے لیے نیک شگون ہے (تصویر: AFP)

14 سالوں تک پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وقار کے لیے قومی ٹیم کے ساتھ وابستگی نئی بات نہیں، وہ اس سے قبل باؤلنگ کوچ اور اسسٹنٹ کوچ کے عہدوں پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ بطور ہیڈ کوچ بھی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ مگر ماضی کے جارح مزاج فاسٹ باؤلر کوچنگ کرتے ہوئے بھی اپنے اس مزاج سے پیچھا نہیں چھڑا سکے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ وقار یونس کے دور کا اختتام مایوس کن اور افسوس ناک انداز میں ہوا۔تقریباً تین برس تک پاکستان کرکٹ سے دور رہنے والے وقار یونس اب نئے عزم کے ساتھ آئے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے وہ اسی جوش و جذبے کے ساتھ پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کریں گے جیسا کہ انہوں نے اپنے گزشتہ دور میں کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ بوریوالہ ایکسپریس نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے پچھلے تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ وہ مثبت ذہن کے ساتھ کھیلتے ہوئے فتوحات کی کوشش کی دعویٰ کرتے ہیں اور دفاعی منصوبہ بندی نہیں اختیار کرنا چاہتے۔ وقار یونس کو امید ہے کہ ان کی ٹیم بھی اسی جذبے کے ساتھ کھیلے گی جیسا جذبہ اپنے ایام میں وقار یونس میں موجود تھا۔

پاکستان نے ورلڈ کپ 2015ء سے قبل وقار یونس کی نگرانی میں 7 ٹیسٹ، 13 ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلنے ہیں، جو عالمی اعزاز کی دوڑ شروع ہونے سے پہلے کافی موزوں تعداد ہے۔ وقار یونس بھی سمجھتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں انہیں اس مرتبہ ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے خاصا وقت ملا ہے، جس کے بعد ان ے خیال میں پاکستان ٹیم میگا ایونٹ سے قبل پوری طرح تیار ہوگی۔

ماضی میں وقار یونس کو اُس وقت کے کپتان شاہد آفریدی کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے کوچنگ چھوڑنا پڑی تھی لیکن اب شاہد آفریدی کے ریسٹورنٹ کی تشہیر تک میں حصہ لینے والے وقار سمجھتے ہیں کہ وہ اختلافات ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ وہ پوری ٹیم کو ایک کنبے کی طرح ساتھ لے کر چلیں۔

ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف اور انہیں دوبارہ نہ دہرانے کی خواہش وقار یونس کے مثبت ذہن کی عکاسی کرتی ہے اور یہی عزم پاکستان کرکٹ کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہوگا۔ اگر ماضی کی تلخیاں حقیقتاً بھلا دی جائیں تو وقار یونس میں اتنی اہلیت موجود ہے کہ جو کارنامہ وہ بطور کھلاڑی انجام نہ دے سکے، بطور کوچ ورلڈ کپ ٹرافی اٹھا کر انجام دے ڈالیں۔