بھارت-انگلستان سیریز، زخمی شیروں کا مقابلہ

1 1,026

تین سال بعد بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم ایک مرتبہ پھر انگلستان میں موجود ہے اور اس مرتبہ بھی اس کے سامنے ایک بڑا سوال ہے کہ آیا وہ پانچ ٹیسٹ مقابلوں کی ایک طویل سیریز میں میزبان کو شکست دے پائے گا یا 2011ء کی کارکردگی ہی دہرائی جائے گی۔

دھونی ان مایوس کن مناظر کو بھلا دینا چاہیں گے، جب بھارت کو انگلستان کے خلاف کلین سویپ ہوا تھا (تصویر: Getty Images)
دھونی ان مایوس کن مناظر کو بھلا دینا چاہیں گے، جب بھارت کو انگلستان کے خلاف کلین سویپ ہوا تھا (تصویر: Getty Images)

بھارت 2011ء میں نئے نویلے ورلڈ چیمپئن اور ٹیسٹ میں عالمی نمبر ایک کی حیثیت سے موسم گرما کے انہی ایام میں انگلستان سے برسر پیکار تھا اور سیریز کے چاروں ٹیسٹ میچز میں بدترین شکست کے ساتھ کلین سویپ سے دوچار ہوا۔ اور کوئی مانے یا نہ مانے، اب بھی اس شکست کا خوف بھارتی کھلاڑیوں کے ذہنوں پر سوار ہوگا۔ وہ شکست کوئی معمولی شکست نہیں تھی۔ بھارت اس کے نتیجے میں عالمی نمبر ایک کی پوزیشن سے ایسا محروم ہوا کہ آج تک نہ صرف یہ کہ دوبارہ اس مقام پر واپس نہ آ سکا بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں اس کی کارکردگی بھی آج تک نہیں سنبھل سکی۔ انگلستان کے ہاتھوں کلین سویپ کے بعد شکستوں کے جس طویل سلسلے کا کا آغاز دورۂ آسٹریلیا سے ہوا تھا، وہ رواں سال کے اوائل میں نیوزی لینڈ میں شکست تک جا پہنچا ہے۔ اب بھارت کے پاس گزشتہ غلطیوں کا ازالہ کرنے کا بہترین موقع ہے۔

بھارت کی حالیہ ٹیسٹ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پے در پے شکستوں سے بے حال انگلستان کو باآسانی زیر کرلے گا ۔ بھارت آخری دونوں غیر ملکی دوروں میں شکست سے دوچار ہوا ہے۔ پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز ہارا اور رواں سال کے اوائل میں نیوزی لینڈ جیسے کمزور حریف کو بھی زیر کرنے میں ناکام رہا جس نے ایک-صفر سے سیریز جیت لی۔ ٹیم کو بیرون ملک آخری ٹیسٹ مقابلہ جیتے ہوئے بھی تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور یہی بھارت کے لیے سب سے پریشان کن امر ہے۔ اس مرتبہ اس کی ٹیم بھی نئی ہے، پچھلی بار سچن تنڈولکر، وی وی ایس لکشمن، راہول ڈریوڈ اور وریندر سہواگ جیسے مہان بیٹسمین موجود تھے، اب صرف تین کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے انگلش سرزمین پر کوئی ٹیسٹ مقابلہ کھیل رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ویراٹ کوہلی کے لیے بھی انگلش کنڈیشنز بالکل اجنبی ہیں کیونکہ انہوں نے یہاں کبھی کوئی میچ نہیں کھیلا۔

پھر دو پریکٹس مقابلوں میں بھی بھارت کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی۔ ان مقابلوں میں بھارت کا سامنا لیسٹرشائر اور ڈربی شائر کی بھی دوسرے درجے کی ٹیموں سے ہوا، جو اپنے اہم کھلاڑیوں سے محروم تھا لیکن اس کے باوجود بھارت کے باؤلرز بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئے۔ باؤلرز کے لیے سازگار ثابت ہونے والی انگلش کنڈیشنز میں بھی بھارت کے نوجوان گیندباز نہ چل پائے۔ لیسٹرشائر کے خلاف مقابلے میں مہندر سنگھ دھونی نے 10 باؤلرز کو آزمایا لیکن وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی حریف کے 5 کھلاڑیوں کو ہی آؤٹ کر پائے، ساتھ ساتھ 349 رنز بھی کھائے۔ ڈربی شائر کے خلاف میچ گو کہ بھارت نے جیت لیا لیکن پہلی اننگز میں 9 باؤلرز آزمانے کے باوجود بھارتی باؤلرز نے حریف ٹیم سے 326 رنز کی مار کھائی اور صرف 5 وکٹیں حاصل کرپائے۔ اگر ان دونوں مقابلوں کو سامنے رکھا جائے تو بھارت سے ہرگز بڑی توقعات باندھنے کو جی نہیں کررہا۔

لیکن دوسری جانب دیکھیں تو انگلستان کا حال بھی پتلا ہے۔ وہ رواں سال آسٹریلیا کے ہاتھوں بری طرح ایشیز ہار چکا ہے اور اب چند ہفتے قبل ہی اسے سری لنکا کے ہاتھوں اپنے ہی میدانوں پر تاریخ کی پہلی سیریز شکست ہوئی۔ گو کہ سری لنکا کے خلاف سیریز میں بہت سخت مقابلہ دیکھنے کو ملا، لیکن شکست تو بہرحال شکست ہی کہلائے گی، اور اس نے انگلش کھلاڑیوں کے حوصلوں کو کافی پست کیا ہوگا۔ بس بھارت کے پاس یہی موقع ہے کہ وہ ایلسٹر کک کی کپتانی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکے۔

فی الحال یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ سیریز میں کون جیتنے کے لیے مضبوط امیدوار ہے، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ مقابلہ دو زخمی شیروں کے درمیان ہوگا، اور امید ہے کہ بہت زبردست ہوگا۔ آپ بھی ٹرینٹ برج، ناٹنگھم پر نظر جمائے رکھیں ، جہاں کل یعنی بدھ سے پہلا ٹیسٹ شروع ہونے جا رہا ہے۔