نوجوانوں کا کمال، بھارت ٹرینٹ برج میں غالب مقام پر

0 1,019

انگلستان کے سابق کھلاڑیوں نے جس ٹیم سے بھارت کو تین-صفر سے شکست دینے کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، وہ محض دو دن ہی میں پچھلے قدموں پر ہے۔ ٹرینٹ برج ٹیسٹ میں مرلی وجے کی شاندار سنچری نے انگلش باؤلنگ لائن اپ کو جو زخم دیے، ان پر بھوونیشور کمار اور محمد شامی کی آخری وکٹ کی زبردست شراکت داری نے خوب نمک چھڑکا۔ رہی سہی کسر دن کے آخری لمحات میں کپتان ایلسٹر کک کی وکٹ گرنے سے پوری ہوگئی ۔ یوں بھارت کے 457 رنز کے جواب میں انگلستان صرف 43 رنز پر اپنے ایک کھلاڑی سے محروم ہے۔

آخری وکٹ پر 111 رنز سہنے کے بعد جو کسر رہ گئی تھی وہ ایلسٹر کک کے صرف 5 رنز پر آؤٹ ہونے سے پوری ہوگئی، یہ بلاشبہ شامی کا دن تھا (تصویر: Getty Images)
آخری وکٹ پر 111 رنز سہنے کے بعد جو کسر رہ گئی تھی وہ ایلسٹر کک کے صرف 5 رنز پر آؤٹ ہونے سے پوری ہوگئی، یہ بلاشبہ شامی کا دن تھا (تصویر: Getty Images)

گو کہ دن کی اہم ترین اننگز مرلی وجے کی 146 رنز کی باری تھی لیکن جس شراکت داری نے انگلستان کے رہے سہے حوصلے کا بھی خاتمہ کردیا وہ آخری وکٹ پر بھووی اور شامی کی 111 رنز کی ساجھے داری تھی۔ جب بھارت دوسرے روز کھانے کے وقفے کے بعد محض دو رنز کے اضافے سے اپنی چار وکٹوں سے محروم ہوا تھا ایسا لگتا تھا کہ صرف چار وکٹوں کے نقصان کے ساتھ 300 رنز کا ہندسہ عبور کرنے والا ہندوستان 350 رنز سے پہلے ہی تمام کھلاڑیوں سے محروم ہوجائے گا۔ کھانے کے وقفے کے بعد رویندر جدیجا، مہندر سنگھ دھونی، اسٹورٹ بنی اور ایشانت شرما کی وکٹیں گرنے سے معاملہ صرف ایک وکٹ پر آ گیا اور بھارت کا اسکور 346 رنز تھا۔ مرلی اور دھونی کی بلے بازی سے ملنے والی برتری یک لخت بھارت کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی تھی کہ انگلش کنڈیشنز سے ناآشنا دو نوآموز گیندبازوں نے اپنی استطاعت سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھا دی۔ جو بوجھ سینئر بلے بازوں کے کاندھے کا تھا، انہیں بھووی اور شامی نے کیا ہی خوبی سے نبھایا کہ بھارت کی تاریخ میں آخری وکٹ کی دوسری بڑی شراکت داری قائم کر ڈالی۔

صرف تین اوورز میں چار وکٹیں لینے کے بعد سکھ کا سانس لینے والے انگلش باؤلرز دو بھرپور سیشنز ان دونوں کی وکٹ کے لیے سرگرداں دکھائی دیے۔ 229 گیندوں کی زبردست مزاحمت نے انگلش سرزمین پر دسویں وکٹ پر سب سے زیادہ گیندوں کا سامنا کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آج تک آخری وکٹ پر کوئی بھی جوڑی 200 گیندیں بھی نہیں کھیل پائی لیکن ان دونوں بلے بازوں نے نہ صرف آخری سپاہی کاکردار ادا کیا بلکہ 111 قیمتی رنز جوڑ کر بھارت کو غالب پوزیشن پر بھی پہنچایا۔

دونوں نوجوانوں کی 111 رنز کی شراکت داری آخری وکٹ پر بھارت کی تاریخ کی دوسری سب سے بڑی رفاقت ہے۔ اس وقت یہ ریکارڈ سچن تنڈولکر اور ظہیر خان کو حاصل ہے جنہوں نے دسمبر 2004ء میں بنگلہ دیش کے خلاف ڈھاکہ ٹیسٹ میں 133 رنز جوڑے تھے۔ لیکن بنگلہ دیش جیسے کمزور حریف کے خلاف اور ایک اینڈ پر سچن کی موجودگی کی وجہ سے یہ ریکارڈ کچھ اتنا "خاص" محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقابلے میں پہلی بار انگلش سرزمین پر ٹیسٹ کھیلنے والے دو نوجوان باؤلرز کا میزبان باؤلرز کے مقابلے میں 111 رنز جوڑنا زیادہ بڑا کام دکھائی دیتا ہے۔

جب دن کے آخری گھنٹے کی شروعات سے پہلے بھوونیشور کمار کی صورت میں بھارت کی آخری وکٹ گری تو 457 رنز کا مجموعہ حاصل ہوچکا تھا۔ کمار 149 گیندوں پر 58 رنز بنانے کے بعد معین علی کی گیند پر آؤٹ ہوئے جبکہ شامی 6 چوکوں اور ایک زبردست چھکے سے مزین 51 رنز کی ناقابل شکست اننگز کے ساتھ میدان سے لوٹے۔

ان دونوں کی ساجھے داری نے بھارت کو اس پوزیشن پر پہنچا دیا ہے کہ کم از کم تاریخ تو بھارت کے حق میں جھک ہی گئی ہے۔ بھارت نے انگلستان کے خلاف پہلی اننگز میں 29 بار 400 سے زیادہ رنز بنائے ہیں اور صرف ایک بار شکست کھائی ہے۔ ان میں سے 9 مقابلوں میں بھارت کو فتح نصیب ہوئی اور 19 بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوئے۔ انگلستان صرف ایک بار جیتنے میں کامیاب ہوا، جولائی 1990ء کے اس یادگار لارڈز ٹیسٹ میں جہاں گراہم گوچ اپنے عروج پر دکھائی دیے تھے۔ انہوں نے پہلی اننگز میں 333 اور 123 رنز جوڑ کر کسی بھی ٹیسٹ میچ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ بنایا جو آج بھی جوں کا توں قائم ہے۔

اب انگلینڈ کو موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لیے ویسی ہی کارکردگی کی ضرورت ہوگی، جو گوچ نے کپتان کی حیثیت سے دکھائی تھی، لیکن کک پہلی اننگز میں تو مکمل ناکام ٹھہرے ہیں اور صرف 5 رنز بنانے کے بعد باہر بیٹھے ہیں۔ یعنی اس مقام سے مقابلے کو واپس اپنی گرفت میں لانے کے لیے نہ صرف کک اور انگلش بیٹنگ بلکہ باؤلنگ لائن اپ کو بھی سخت محنت کرنا ہوگا۔