[باؤنسرز] پی سی بی میں نجم سیٹھی کا مستقبل تاریک؟

1 1,019

پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات حکومت اور عدالت کے درمیان کھینچا تانی کی وجہ سے اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ اب ان کے سدھرنے کے امکانات ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان دھینگا مشتی نے پاکستان کرکٹ کو تلافی نقصان پہنچا ہے اور اب ہر آئے روز چیئرمین بحالی و معطلی نظر آ رہی ہے۔ پرسوں نجم سیٹھی چیئرمین تھے، کل انہیں ہٹا دیا گیا، آج انہیں بحال کردیا گیا اور نجانے آنے والے کل میں ان کی حیثیت کیا ہوگی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ دنوں ’’بگ فور‘‘ اور پی سی بی کے مالامال ہونے کا شور اب عدالت کی آرڈر، آرڈر کی آوازوں میں دب چکا ہے۔

Pakistan-cricket-Board-logo

حقیقت یہ ہے کہ پی سی بی میں کام کم اور شور زیادہ مچایا جارہا ہے۔ آئی سی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چوتھے رکن کی حیثیت سے انتخاب کو نجم سیٹھی’’بگ فور‘‘ سے تعبیر کررہے ہیں مگر حیرت ہے کہ ابھی تک ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ نے ’’بگ فائیو‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا، جو اس کمیٹی کا پانچواں رکن ہے۔دوسری جانب بھارت کے قدموں میں بیٹھنے کے بعد بھارت کے ساتھ کرکٹ امور کی بحالی کے متعلق جو ڈھول پیٹا گیا تھا اب اس ڈھول کا بھی پول کھل گیا ہے کیونکہ اگلے آٹھ برسوں کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ چار مرتبہ بھارت کی میزبانی کرتے ہوئے صرف چھ ٹیسٹ ہی کھیل پائے گاجبکہ اتنے ہی ٹیسٹ میچز کے لیے پاکستانی ٹیم دو مرتبہ بھارت جائے گی۔ یعنی مجموعی طور پر دونوں روایتی حریف آٹھ برسوں میں بارہ ٹیسٹ کھیلیں گے ۔نجم سیٹھی نے چند ہفتے قبل بھارت کے ساتھ جن چھ سیریزوں کی نوید سنائی تھی ان میں محض بارہ ٹیسٹ میچز رکھے گئے ہیں اور یہ بارہ ٹیسٹ بھی اس صورت میں کھیلے جائیں گے جب بھارتی حکومت اپنی ٹیم کو پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دے گی اور اگر ایسا نہ ہوا توپھر یہ سارے معاہدے چشم زدن میں ردی کی ٹوکری میں جاگریں گے۔

آسٹریلیا کے ساتھ تین ٹیسٹ میچز پر مشتمل دو سیریز آسٹریلیا میں ہی شیڈول ہیں جبکہ پاکستان آٹھ ٹیسٹ میچز کے لیے چار مرتبہ کینگروز کی میزبانی کرے گا۔ انگلینڈ کے ساتھ چار ٹیسٹ میچز پر مشتمل دو سیریز کھیلنے کے لیے پاکستانی ٹیم انگلینڈ کا دورہ کرے گی جبکہ پاکستان چار مرتبہ میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے انگلینڈ کے ساتھ مزید آٹھ ٹیسٹ میچز کھیلے گا۔ ماضی کی طرح نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے خلاف پاکستانی ٹیم زیادہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلے گی جبکہ آٹھ برسوں میں جنوبی افریقہ کے ساتھ صرف ایک سیریز شیڈول ہے۔

اگلے آٹھ برسوں میں پاکستانی ٹیم 77 ٹیسٹ میچز میں حصہ لے گی جبکہ 2009ء سے اب تک پاکستانی ٹیم 43ٹیسٹ میچز کھیل چکی ہے اور اس سال کے اختتام پر ان میچز کی تعداد 47ہوجائے گی۔ ان چھ برسوں میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا اور اگر اگلے آٹھ برسوں میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں کے سبب دونوں ٹیموں کا آمنا سامنا نہ ہوا تو پھر پاکستان کے ٹیسٹ میچز کی تعداد 65 ہو جائے گی یعنی اوسطاً8ٹیسٹ میچز سالانہ اور گزشتہ چھ برسوں میں پاکستان کے میچز کی اوسط تعداد بھی لگ بھگ 8ہی بنتی ہے، تو ایساکون سا کارنامہ انجام دے ڈالا گیا ہے، جس کا تمغہ سینے پر سجا کر دکھایا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر سے پاکستانی شائقین کرکٹ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ورنہ دوسری صورت میں بھارت کی حمایت کرنے کے باوجود پاکستان کے لیے کچھ نہیں بدلا ۔’’ایکسٹینشن‘‘ پر چلنے والے نجم سیٹھی ماضی میں پی سی بی کے سربراہ کے عہدے کے لیے الیکشن کروانے میں بھی ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ہیں حالانکہ عدالت نے نجم سیٹھی کو پہلے دن سے پی سی بی میں انتخابات کروانے کا ٹاسک دیا تھا۔اب سپریم کورٹ نے حکومتی نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے نجم سیٹھی کی مستقل اور قانونی راستے سے آمد کا راستہ روک دیا ہے، لیکن حقیقت میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کے لیے 21 جولائی تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔

نجم سیٹھی اگر بورڈ میں انتخابات کا انعقاد کرکے باعزت طور پر رخصت ہوجاتے تو عرصے تک پاکستان کرکٹ کے ایوانوں میں ان کا نام احترام کے ساتھ لیا جاتا، لیکن انہوں نے حکومت وقت کے ساتھ مل کر نہ صرف اپنے لیے احترام گنوایا بلکہ اب ان کا مستقل چیئرمین کا خواب بھی مکمل ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔