آخری وکٹ کی جوابی رفاقت، ٹرینٹ برج ٹیسٹ اہم مرحلے میں داخل

0 1,037

انگلستان اور بھارت کے درمیان ٹرینٹ برج، ناٹنگھم میں جاری پہلا ٹیسٹ تیسرے روز کے اختتام پر دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کیونکہ بھارت ہی کی طرح انگلستان کی آخری جوڑی نے بھی ایک زبردست شراکت داری کے ذریعے خسارے کو 105 رنز تک محدود کردیا ہے، اور ابھی یہ رفاقت جاری ہے اور امید ہے کہ کم از کم یہ بھارت کی برتری کو دہرے ہندسے میں تو باآسانی لے ہی آئے گی۔

جو روٹ کی 78 رنز کی ناقابل شکست اننگز نے انگلستان کے خطا ہوتے اوسان بحال کردیے ہیں (تصویر: AFP)
جو روٹ کی 78 رنز کی ناقابل شکست اننگز نے انگلستان کے خطا ہوتے اوسان بحال کردیے ہیں (تصویر: AFP)

ٹرینٹ برج ٹیسٹ کا تیسرا دن انگلستان کے لیے ملا جلا رہا کیونکہ جہاں گیری بیلنس اور سام روبسن کی سنچری شراکت داری نے بھارت کو پہلے پورے سیشن میں وکٹ سے محروم رکھا۔ دونوں نے دوسری وکٹ پر 125 رنز جوڑے اور جیسے ہی کھانے کے وقفے کے بعد کا کھیل شروع ہوا بھارت کے باؤلرز مقابلے پر چھا گئے۔ انہوں نے پورے سیشن میں محض 74 رنز دیے اور انگلینڈ کی 6 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ گو کہ اس میں ڈی آر ایس کی عدم موجودگی کا کردار بھی اہم رہا کیونکہ اس کی وجہ سے دو کھلاڑی امپائر کے ناقص فیصلے کا نشانہ بنے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روبسن 59 اور بیلنس 71 رنز کے پویلین لوٹنے کے بعد جو روٹ کو چھوڑ کر دوسرے اینڈ سے وکٹیں روکنا انگلستان کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔ نئی گیند، ابر آلود موسم اور کچھ انگلش بیٹسمینوں کی نااہلی، ان تینوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ چائے کے وقفے سے پہلے بین اسٹوکس کی صورت میں ساتویں وکٹ بھی گرگئی۔ بھارت کو اب بھی 250 رنز سے زیادہ کی برتری حاصل تھی اور آسمان کے ساتھ ساتھ انگلینڈ کی پیشرفت پر بھی بادل چھا رہے تھے۔ اس مرحلے پر جو روٹ نے نجات دہندہ کی ذمہ داری نبھائی اور آخری سیشن میں پہلے اسٹورٹ براڈ اور بعد ازاں آخری وکٹ پر جیمز اینڈرسن کے ساتھ مل کر انگلستان کو سنگین صورتحال سے نکالا اور میچ کو مکمل طور پر گرفت سے نکلنے سے بچا لیا۔

براڈ اور روٹ کے درمیان آٹھویں وکٹ پر 78 رنز کی شراکت داری نے ہی بھارت کو خاصا زچ کردیا تھا لیکن آخری وکٹ پر روٹ اور اینڈرسن کی 54 رنز کی ناقابل شکست ساجھے داری نے تو اس غلبے کا خاتمہ ہی کردیا جو بھارت کو دوسرے سیشن کے اختتام پر حاصل ہوا تھا۔ جب تیسرے دن کا کھیل مکمل ہوا تو روٹ 78 اور اینڈرسن 23 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے اور بھارت جو ایک مرحلے پر ڈیڑھ سے 200 رنز کی برتری حاصل کرتا دکھائی دیتا تھا، اب اپنی 100 رنز کی برتری کو بھی خطرے میں محسوس کررہا ہے۔ دن کے پہلے سیشن میں ناکامی کا منہ دیکھنے والے بھارتی باؤلرز آخری سیشن میں نچلے درجے کے بیٹسمینوں کی بھی صرف دو وکٹیں حاصل کرسکے۔

روٹ اور جمی کی آخری وکٹ کی شراکت داری کی خاص بات ان کا دفاعی کھیل پیش کرنے کے بجائے کھل کر رنز بنانا تھا۔ دونوں نے دن کے آخری 10 اوورز میں 41 رنز کا اضافہ کیا اور صرف روٹ ہی نہیں بلکہ اینڈرسن نے بھی شراکت داری میں کھل کر حصہ ڈالا۔ جہاں رفاقت نے 28 رنز روٹ کے ہیں تو 23 رنز جمی نے بھی جوڑے ہیں۔

یاد رہے کہ اس میچ کی پہلی اننگز میں بھارت نے بھوونیشور کمار اور محمد شامی کی ریکارڈ 111 رنز کی شراکت داری کی بدولت اسکور کو 450 رنز کا ہندسہ بھی پار کرا دیا تھا۔ اگر یہ شراکت داری نہ ہوتی تو انگلستان اب پہلی اننگز میں برتری کے لیے پر تول رہا ہوتا۔ بہرحال، شامی اور بھووی کی اسی کارکردگی کو دہرانے کی کوشش روٹ اور جمی کے درمیان جاری ہے۔

شاید ٹرینٹ برج کی وکٹ میں آخری جوڑی کے کھلاڑیوں کے لیے کچھ خاص ہے۔ گزشتہ سال کے انہی ایام میں آسٹریلیا کے فلپ ہیوز اور نوجوان کھلاڑی آشٹن ایگر نے انگلینڈ کے خلاف آخری وکٹ پر 163 رنز جوڑ کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ میچ سنسنی خیزی کے آخری حدوں تک پہنچا تھا اور صرف 14 رنز سے انگلستان مقابلہ جیتنے میں کامیاب رہا۔ کیا بھارت-انگلستان یہ مقابلہ بھی ایسے ہی سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوگا؟ اس کا اندازہ چوتھے دن کے کھیل سے ہوجائے گا کیونکہ چند سوالات کے جواب ابھی باقی ہیں۔ جیسا کہ بھارت پہلی اننگز میں کتنی برتری حاصل کرے گا؟ اس کی دوسری اننگز کتنی دیر جاری رہتی ہے؟ اور کیا وہ میچ کو فیصلہ کن مرحلے میں لے جانے کی کوشش کرے گا یا دفاعی کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرا پر اکتفا کرے گا۔ اس کا اندازہ چوتھے دن کے کھیل سے ہوجائے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جو بھی صورتحال ہو، بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا فریضہ آخری اننگز میں بھارت کے انہی باؤلرز کو سرانجام دینا پڑے گا، جو اپنے انگلش حریف گیندبازوں کی طرح اب تک کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا پائے۔