بھارت 28 سال بعد لارڈز میں جیت گیا

4 1,029

'کرکٹ کا گھر' لارڈز آج سے پہلے بھارت کے لیے ایک بھوت بنگلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 80 سال سے بھی پرانی تاریخ میں بھارت یہاں صرف ایک بار ٹیسٹ میچ جیتا تھا، وہ بھی 28 سال پہلے ۔ لیکن زوال پذیر انگلستان کے خلاف اس تاریخی میدان پر میچ جیتنے کا اس سے سنہرا موقع شاید ہی بھارت کو مل پاتا، اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اس موقع کو سمیٹا اور ایک یادگار مقابلہ جیت کر سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل کرلی۔

ایشانت شرما کی کیریئر کی بہترین باؤلنگ نے بھارت کو یادگار فتح تک پہنچا دیا (تصویر: Getty Images)
ایشانت شرما کی کیریئر کی بہترین باؤلنگ نے بھارت کو یادگار فتح تک پہنچا دیا (تصویر: Getty Images)

اجنکیا راہانے کی پہلی اننگز کی سنچری، پھر بھوونیشور کمار کی 6 وکٹیں اور دوسری اننگز میں مرلی وجے کے 95، رویندر جدیجا کے 68 اور بھوونیشور کے 52 رنز نے بھارت کو اس مقام تک پہنچایا کہ وہ انگلستان پر حتمی وار لگا سکے، اور یہ کام انجام دیا ایشانت شرما نے 2008ء میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ ٹیسٹ کے بعد اپنے کیریئر کی یادگار ترین باؤلنگ کی اور 8 اوورز کے اسپیل میں انگلستان کی پانچ وکٹیں حاصل کرکے بھارت کو تقریباً تین دہائیوں کے بعد اس میدان پر مقابلہ جتوا دیا۔ ایشانت نے دوسری اننگز میں مجموعی طور پر 74 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں اور کیریئر کی اس بہترین کارکردگی پر انہیں مرد میدان کا اعزاز بھی دیا گیا۔

ایک جانب جہاں یہ گزشتہ تین سالوں میں بیرون ملک بھارت کی پہلی جیت ہے وہیں انگلینڈ کی شکستوں کا سلسلہ بھی مزید دراز ہوکر 10 ٹیسٹ میچز تک پہنچ گیا ہے۔ بھارت نے آخری بار 2011ء کے دورۂ ویسٹ انڈیز میں ایک ٹیسٹ مقابلہ جیتا تھا اور اس کے بعد سے اب تک انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے کسی ٹیسٹ میچ میں جیت نہیں سکا تھا۔ بیرون ملک ناقص کارکردگی کی وجہ سے مہندر سنگھ دھونی کی قیادت پر سخت سوالات اٹھائے گئے لیکن شکستوں کے اس بھیانک سلسلے کا آج لارڈز میں خاتمہ ہوگیا۔ انگلینڈ جو رواں سال آسٹریلیا اور اس کے بعد اپنے ہی میدانوں پر سری لنکا کے ہاتھوں تاریخ کی پہلی سیریز ہارنے کے بعد تر نوالہ بن چکا تھا، پہلے میچ میں تو کسی نہ کسی طرح بچ گیا، لیکن یہاں بھارت کے وار نہ سہہ سکا اور 95 رنز کے واضح مارجن سے ہار گیا۔

ٹرینٹ برج میں پہلے ٹیسٹ کی پچ پر کڑی تنقید سہنے کے بعد لارڈز میں کوشش کی گئی کہ ایسی وکٹ بنائی جائے جو باؤلرز کے لیے مددگار ہو لیکن کوئی حربہ بھارت کو پہلی اننگز میں 295 رنز بنانے سے نہ روک سکا۔ اس اسکور تک پہنچنے میں سب سے اہم کردار اجنکیا راہانے نےادا کیا، جنہوں نے مرلی، شیکھر، پجارا، کوہلی، دھونی، جدیجا اور بنی کی ناکامی کے باوجود اننگز کو منہ کے بل گرنے نہیں دیا بلکہ 145 رنز پر 7 وکٹیں گرنے کے بعد بھوونیشور کمار اور محمد شامی کے ساتھ مل کر اسکور میں مزید 130 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ بھووی کا باؤلنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں کمال دکھانے کا سلسلہ لارڈز میں بھی جاری رہا جہاں انہوں نے پہلی اننگز میں 36 رنز بنائے، ان کی دوسری اننگز کا احوال ہم آگے پیش کریں گے۔ بہرحال، بھارت کی پہلی اننگز دوسرے روز صبح سویرے 19 رنز بنانے والے شامی کے آؤٹ ہونے کے ساتھ 295 رنز پر مکمل ہوئی۔ راہانے 154 گیندوں پر 103 رنز بنانے کے ساتھ سب سے آگے آگے رہے۔ ان کی باری میں 15 چوکوں کے ساتھ ساتھ بھارتی اننگز کا واحد چھکا بھی شامل تھا۔

انگلستان کی جانب سے جیمز اینڈرسن نے 4 جبکہ اسٹورٹ براڈ اور بین اسٹوکس نے دو، دو اور لیام پلنکٹ اور معین علی نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے انگلینڈ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کپتان ایلسٹر کک کی ناقص فارم کا سلسلہ جاری رہنے اور این بیل کی ایک اور ناکامی کے باوجود گیری بیلنس کی سنچری اور لیام پلنکٹ کے ناقابل شکست 55 رنز نے اسے بھارت کے اسکور پر برتری دلا دی۔ بیلنس اور معین علی کے درمیان پانچویں وکٹ پر 98 رنز کی شراکت داری نے یقینی بنایا کہ وہ اس سنگ میل تک پہنچے اور پھر پلنکٹ کے تیز رفتار 55 رنز انگلستان کو 319 رنز تک لے گئے۔ گیری بیلنس کے 203 گیندوں پر 110 رنز سب سے نمایاں بیٹسمین رہے۔

بھارتی باؤلنگ میں سب سے اہم نام اس مرتبہ بھی بھوونیشور کمار کا رہا جنہوں نے 82 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو وکٹیں رویندر جدیجا اور ایک، ایک محمد شامی اور مرلی وجے کو ملیں۔

اب سب کی نظریں جیمز اینڈرسن اور رویندر جدیجا تنازع کے فیصلے پر ہیں، جس کی سماعت کل ہوگی (تصویر: AP)
اب سب کی نظریں جیمز اینڈرسن اور رویندر جدیجا تنازع کے فیصلے پر ہیں، جس کی سماعت کل ہوگی (تصویر: AP)

اب بھارت کے بیٹسمینوں کی باری تھی کہ وہ ثابت کریں کہ آخر کیوں انہیں انگلینڈ سے بہتر ٹیم سمجھا جارہا ہے؟ محض ایک وکٹ پر 118 رنز تک پہنچ کر ابتدائی بلے بازوں نے بہت مستحکم بنیاد تو فراہم کردی لیکن پلنکٹ کے ہاتھوں دو مسلسل گیندوں پر پجارا اور کوہلی کی وکٹیں گرنے اور کچھ ہی دیربعد راہانے کے آؤٹ ہونے کے بعد مقابلہ یکدم برابری کی سطح پر آگیا۔ تیسرے دن کا اختتام 169 رنز 4 وکٹوں کے ساتھ ہوا اور ایک بہت بھاری ذمہ داری کے ساتھ بھارت نے چوتھے دن کی شروعات کی، لیکن مزید ناکامیوں کے ساتھ 235 رنز تک پہنچتے پہنچتے اس کی 7 وکٹیں گرچکی تھیں جن میں مہندر سنگھ دھونی اور مرلی وجے کا آؤٹ ہونا سب سے بھاری تھا۔ وجے 95 اور دھونی صرف 19 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ پہلی اننگزکا 24 رنز کا خسارہ نکال دیں تو بھارت اس وقت صرف 211 رنز آگے تھا اور صرف تین وکٹیں باقی تھیں۔

اس نازک مرحلے پر رویندر جدیجا اور بھوونیشور کمار نے انگلش باؤلرز کو ایک مرتبہ پھر آخری وکٹوں کے حصول کے لیے پریشان کیے رکھا۔ دونوں کی 99 رنز کی شراکت داری ہی وہ موڑ تھا جس نے میچ کو بھارت کے حق میں جھکادیا۔

اگر جدیجا پہلے ٹیسٹ میں اینڈرسن کے ساتھ اپنے جھگڑے کی وجہ سے پابندی کی زد میں آ بھی گئے تو وہ شاندار 68 رنز کے ذریعے بھارت کو سیریز میں برتری ضرور دے گئے ہیں۔ دوسرے اینڈ پر بھووی کی شاندار بیٹنگ کا تسلسل جاری رہا جنہوں نے دورے کی تیسری نصف سنچری بنائی اور 52 رنز بنا کر آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی بنے۔ بھارت کی دوسری اننگز 342 رنز پر مکمل ہوئی اور یوں انگلستان کو 319 رنز کا ہدف ملا۔ جو اتنا زیادہ مشکل نہ ہوتا اگر وہ چوتھے دن کے اختتام تک 4 وکٹیں نہ گنوا بیٹھتا۔ محض ساتویں اوور میں سام روبسن کے جدیجا کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہونے کے بعد سلسلہ کچھ رکھا اور اننگز 70 رنز تک پہنچ گئی لیکن اس جگہ پر شامی کا بیلنس کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ کرنا اور ایشانت شرما کا دو مسلسل اوورز میں این بیل اور ایلسٹر کک کی وکٹیں کھڑکانا فیصلہ کن ضرب ثابت ہوا۔

آخری روز معین علی اور جو روٹ کی 101 رنز کی شراکت داری واحد قابل ذکر مزاحمت رہی۔ روٹ 66 اور معین 39 رنز بنا کر انگلینڈ کی دوسری اننگز کے سب سے نمایاں بیٹسمین رہے۔ انہوں نے میچ کو اس مرحلے تک پہنچا دیا کہ انگلینڈ کو 6 وکٹوں کے ساتھ 149 رنز کی ضرورت تھی جو قابل حصول ہدف تھا لیکن اس مرتبہ ٹیل اینڈرز نے بھارت کی باؤلنگ کے سامنے کوئی مزاحمت نہ کرسکے۔ ایشانت شرما کے سامنے باقی سب بیٹسمین ہتھیار ڈالتے چلے گئے اور چائے کے وقفے سے پہلے پہلے پوری انگلش ٹیم 223 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔

ایشانت شرما کو باؤلنگ کے یادگار مظاہرے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب دونوں ٹیمیں 27 جولائی سے ساؤتھمپٹن میں تیسرا ٹیسٹ کھیلیں گی جہاں انگلستان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس سے پہلے سب کی نظريں کل جدیجا-اینڈرسن تنازع کی سماعت پر ہیں، جہاں بھارت کو تو شاید جدیجا کی پروا نہ ہو، کیونکہ ان کا ایک میچ کے لیے باہر ہوجانا بھارت کے لیے زیادہ پریشان کن نہ ہوگا لیکن اگر کمیشن نے اینڈرسن کو جرم کا مرتکب پایا اور انہیں پر دو سے چار ٹیسٹ میچز کی پابندی لگا دی تو شاید انگلستان کے لیے سیریز کا فیصلہ ہوجائے گا۔