صرف سعید اجمل پر بھروسہ کرنا چاہیے؟

3 1,018

کسی زمانےمیں پاکستان جب چاہے، جہاں چاہے اور جیسے چاہے سری لنکا کو شکست دے دیتا تھا اور پاکستانی کھلاڑیوں کے کئی انفرادی ریکارڈز اس کے گواہ ہیں۔ لیکن ۔۔۔ اب وقت بدل چکا ہے اور گو کہ ریکارڈ بک میں پاکستان کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پاکستا ن کے لیے آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز جیتنا ایک خواب بن چکا ہے،بالکل اسی طرح گزشتہ آٹھ سالوں میں پاکستان سری لنکا میں بھی ٹیسٹ سیریز نہیں جیت سکا۔ ممکن ہے یہ ’’اطلاع‘‘ شائقین کرکٹ کے لیے نئی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ 2005-06ء میں محمد آصف کی تباہ کن بالنگ کی بدولت سری لنکا میں سیریز جیتنے والا پاکستان اس کے بعد سے آج تک لنکا نہیں ڈھا سکا۔

صرف سعید اجمل پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے پاکستان سری لنکا کے خلاف گزشتہ دو سیریز ہار چکا ہے (تصویر: AFP)
صرف سعید اجمل پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے پاکستان سری لنکا کے خلاف گزشتہ دو سیریز ہار چکا ہے (تصویر: AFP)

محض چند دنوں بعد ایک شروع ہونے والی پاک-لنکا باہمی سیریز پاکستان کے لیے اس لیے بہت اہم ہے کہ مصباح الیون کو اس میں سری لنکا میں شکستوں کے تسلسل کو توڑنا ہے۔ اس مرتبہ دونوں ٹیمیں صرف دو ٹیسٹ میچز ہی کھیلیں گی، اس لیے پہلا ٹیسٹ بہت اہم ہوگا جہاں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم کے سیریز میں جیتنے کا موقع بھی پیدا ہوجائے گا۔

پاکستان چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے ٹیسٹ کرکٹ سے دور ہے۔ سری لنکا ہی کے خلاف شارجہ میں تاریخی کامیابی طویل طرز کی کرکٹ میں پاکستان کا آخری مقابلہ تھا۔ لیکن اس کے بعد ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی شکستوں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی کے معاملے پر میوزیکل چیئر کا کھیل اور سلیکشن کمیٹی اور کوچز کی تبدیلی جیسے واقعات پیش آئے۔ اب ہیڈ کوچ وقار یونس اور ان کے معاونین کی نگرانی میں پاکستان ٹیم ایک نئے دور کا آغاز کررہی ہے۔

پاکستان کو دورۂ سری لنکا سے پہلے 9 دن تربیت کا موقع ملا ہے جبکہ سری لنکا انگلستان کے خلاف ایک تاریخی سیریز کامیابی کے بعد اب جنوبی افریقہ جیسی ورلڈ کلاس ٹیم کے خلاف کھیل رہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سری لنکا زیادہ بہتر پریکٹس اور فارم میں ہے اور پھر اسے ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کا ایڈوانٹیج بھی حاصل ہوگا۔ ٹیسٹ کرکٹ سے چھ مہینوں کی دوری کپتان مصباح الحق کو محسوس نہیں ہو رہی جن کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں اسپن کا کردار کافی اہم ہوگا اور سعید اجمل کے ساتھ عبدالرحمٰن کی موجودگی امید پیدا کرتی ہے کہ پاکستان اس مرتبہ سری لنکا کے خلاف شکستوں کے سلسلے کا خاتمہ کردے گا۔

گزشتہ دو سیریزوں میں سعید اجمل نے سری لنکا کے خلاف 29 وکٹیں حاصل کیں لیکن ان کی یہ کارکردگی بھی پاکستان کو سیریز تو کجا، کوئی ٹیسٹ میچ بھی نہیں جتوا سکی۔ دوسری طرف رنگانا ہیراتھ کی 30 وکٹوں نے سری لنکا کی تین فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ انفرادی سطح پر سعید کی کارکردگی بہت عمدہ رہی لیکن مصباح کے بقول انہیں دوسرے اینڈ سے وہ سپورٹ نہیں مل سکی جو مقابلے کو پاکستان کے حق میں جھکانے کے لیے ضروری ہے ۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ عبد الرحمٰن نے 2012ء کی سیریز کے دو مقابلوں میں 41.33 کے اوسط سے صرف چھ وکٹیں حاصل کیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دوسرے اسپنر کی اوسط درجے کی کارکردگی ہے۔

سعید اجمل نے 2009ء میں اپنی پہلی سیریز میں 14 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی کاؤنٹی فارم بھی قابل تحسین ہے لیکن سری لنکا میں ماسٹر اسپنر کو مختلف کنڈیشنز میں باؤلنگ کرنا ہوگی ۔ پھر یہ مقابلے کاؤنٹی سطح کے نہیں بلکہ بین الاقوامی ہوں گے اس لیے ان کا دباؤ بھی زیادہ ہوگا۔ سعید اجمل کی صلاحیتوں پر شک نہیں لیکن سری لنکا کی کنڈیشنز میں انہیں دوسرے اینڈ سے ایک معیاری اسپنر کی سپورٹ کی سخت ضرورت ہے۔

اگر سعید اجمل پہلے ٹیسٹ میں تن تنہا سری لنکا کی بیٹنگ لائن کا جلوس نکال دیں تو پاکستان کے لیے اس سے اچھی بات کیا ہوگی؟ لیکن گال میں کامیابی کے لیے پاکستان کو دوسرے اسپنر اور بالخصوص جنید خان کی بہتر کارکردگی کی ضرورت ہوگی۔ سعید اور جنید کاؤنٹی کھیلنے کی وجہ سے دیگر کھلاڑیوں کی نسبت بہتر پریکٹس میں ہیں مگر اس سیريز میں پاکستان کو عبد الرحمٰن کے سپورٹنگ کردار کی بہت ضرورت ہے، اس لیے ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے انہیں دونوں ٹیسٹ میچز میں مواقع دیے جائیں۔ پاکستان کو صرف سعید اجمل پر بھروسہ کرنے کی عادت ترک کرنا ہوگی کیونکہ اسی حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان سری لنکا میں گزشتہ دو سیریز میں شکست کھاچکا ہے۔