عالمی کپ میں شرکت، محمد عامر ناامید

4 1,016

دنیا بھر کی تمام ٹیموں، شائقین اور ماہرین کی نظریں اب ورلڈ کپ پر ہیں۔ تمام تیاریاں اس اہم ترین ٹورنامنٹ کو ذہن میں رکھ کر کی جا رہی ہیں اور دورۂ سری لنکا اور اس کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف مکمل سیریز پاکستان کی تیاریوں میں اہم کردار ادا کریں گی۔ لیکن پاکستان کو ایک اچھے تیز باؤلر کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے۔

محمد عامر کو ورلڈ کپ میں شرکت کا تو یقین نہیں، لیکن وہ پرامید ہیں کہ جب بھی موقع ملا، وہ کھیلنے کے لیے تیار ہوں گے (تصویر: Getty Images)
محمد عامر کو ورلڈ کپ میں شرکت کا تو یقین نہیں، لیکن وہ پرامید ہیں کہ جب بھی موقع ملا، وہ کھیلنے کے لیے تیار ہوں گے (تصویر: Getty Images)

اگلے سال فروری اور مارچ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے عالمی کپ سے قبل پاکستان کے لیے سب سے اہم مسئلہ اس کی تیز باؤلنگ کے محدود وسائل ہیں۔ پاکستان اس وقت مکمل طور پر اپنی اسپن قوت پر انحصار کررہا ہے اور غالباً پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ باؤلنگ کی کمان تیز باؤلرز کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ شاید اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کچھ عرصے سے کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح محمد عامر کی سزا میں کمی کروائی جائے۔ عامر پر اگست 2010ء میں انگلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ میں اسپاٹ فکسنگ کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا جس کی بنیاد پر ان پر پانچ سال کی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہ فکسنگ کے جرم پر آئی سی سی کی کم از کم سزا ہے اور قانون میں ترمیم کے علاوہ اس میں کوئی کمی کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے پاکستان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور اب صرف واحد آسرا یہی باقی ہے کہ آئی سی سی آئندہ اکتوبر میں محمد عامر کو اجازت دے کہ وہ فرسٹ کلاس سطح پر کھیل کرخود کو بین الاقوامی کرکٹ کے لیے تیار کریں۔ عائد شدہ پابندی کے مطابق عامر ستمبر 2015ء سے پہلے کسی بھی سطح پر کرکٹ نہیں کھیل سکتے یعنی ان کے ورلڈ کپ کھیلنے کے امکانات اب تقریباً صفر ہیں۔

اپنی پابندی کے تقریباً چار سال پورے کرنے والے محمد عامر کہتے ہیں کہ آئندہ سال ورلڈ کپ میں شرکت سے تو وہ تقریباً ناامید ہوچکے ہیں لیکن معاملہ آئی سی سی کے ہاتھ میں ہے اور دیکھتے ہیں کہ وہ اکتوبر میں اپنے قانون میں کیا ترمیم کرتا ہے۔ کسی بھی صورت میں وہ فوری طور پر میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔ چاہے انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کی اجازت ملے یا صرف ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی۔ البتہ وہ ورلڈ کپ کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں اور کہتے ہیں کہ فی الحال تو میں خود کو ورلڈ کپ کھیلتا نہیں دیکھ رہا کیونکہ تمام معاملات کو ایک خاص طریقے سے گزرنا ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا شکرگزار ہوں کہ جس نے معاملے کو اس حد تک آگے بڑھایا۔ اب مجھے جب بھی تربیت شروع کرنے یا کھیلنے کی اجازت ملی، تو میں مکمل طور پر تیار ہوں گا۔

محض 18 سال کی عمر میں دنیا کے بہترین تیز باؤلر سمجھے جانے والے عامر اب اپنے کیے پر بہت شرمندہ بھی ہیں اور انہوں نے برطانیہ میں اپنے خلا ف بدعنوانی و دھوکہ دہی کے مقدمے میں اعتراف جرم بھی کیا تھا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ میں نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری اور اپنی عزت، دولت اور شہرت سب کچھ گنوا دی۔ انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو تجویز پیش کی کہ وہ سینئر کھلاڑیوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو ڈومیسٹک کرکٹ اور قومی ٹیم میں موجود نوجوان کھلاڑیوں پر نظر رکھے اور انہیں آگہی دے کہ وہ کس طرح خود کو کرپشن کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کھلاڑیوں کو لالچ دے کر انہیں غلط راستے پر لانا چاہتے ہیں۔

محمد عامر نے کہا کہ اگر کوئی سینئر کھلاڑی مجھے روکتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ سینئر کھلاڑیوں کا نئے کھلاڑیوں کی تربیت میں اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ فرد کا ایماندار ہونا ضروری ہے، اگر آپ ایماندار ہیں تو کوئی آپ کو ہاتھ بھی نہيں لگا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال تو میں اکتوبر کا منتظر ہوں کہ آیا مجھے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملتی ہے یا صرف ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی، یا پھر پابندی برقرار رہتی ہے۔

محمد عامر 50 ٹیسٹ وکٹیں لینے والے کم عمر ترین باؤلر بنے اور اس کے فوراً بعد اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں دھر لیے گئے تھے، جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں فاسٹ باؤلنگ کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا گیا تھا۔