کیا یہ صرف یونس اور مصباح کی ذمہ داری ہے؟

4 1,036

عمر قید کی سزا بھی 14 سالوں میں ختم ہوجاتی ہے اور ممکن ہے کہ گال میں پاکستان کی 14 سالہ بدقسمتی کا خاتمہ بھی اسی ٹیسٹ میں ہوجائے جس میں یونس خان نے پہلے ہی دن سنچری اننگز کھیلی۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی پہلے معین خان کی زیر قیادت سعید انور، انضمام الحق اور وسیم اکرم کی سنچریوں کے ساتھ ساتھ یونس خان کی تہرے ہندسے کی اننگز نے بھی پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ مرد بحران یونس خان کی یہ سنچری ایک مرتبہ پھر گال میں پاکستان کا پرچم سربلند کرے گی۔

اظہر علی اور اسد شفیق کو جلد ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مصباح الحق اور یونس خان کے خلاء کو پورا کرسکتے ہیں (تصویر: AFP)
اظہر علی اور اسد شفیق کو جلد ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مصباح الحق اور یونس خان کے خلاء کو پورا کرسکتے ہیں (تصویر: AFP)

یونس خان کی مہارت، صلاحیت اور بحرانی حالات میں غیر معمولی باریاں کھیلنے کی اہلیت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، مگر سوال یہ ہے کہ آخر کب تک صرف یونس خان اور مصباح الحق ہی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ کیریئر کے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے یہ سینئر کھلاڑی کب تک ڈانواڈول بیٹنگ لائن کو سہارا دیتے رہے گے اور ٹیم میں شامل دیگر چار بیٹسمین کب اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں گے؟

ذرا حریف پر تو نگاہ ڈالیں، مہیلا جے وردھنے اور کمار سنگاکارا نے برسوں سے بیٹنگ لائن کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ اب مہیلا اس سیریز کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے مگر ان کے جانے سے پہلے ہی سری لنکا کو اینجلو میتھیوز کی صورت میں ایسا بیٹسمین میسر ہے جو بیٹنگ کی ذمہ داری ان سینئر سے لے چکا ہے۔ مگر پاکستان میں ایسی مثال نہیں ملتی بلکہ نوجوان بیٹسمین صرف اپنی جگہ بچانے کی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اب پاکستان میں اوپننگ پوزیشن سے شروع کریں۔ یہاں میوزیکل چیئرز کا سلسلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ 2011ء میں محمد حفیظ اور توفیق عمر کی موجودگی میں کچھ استحکام میسر آیا مگر یہ جوڑی ٹوٹنے کے بعد پھر پاکستان کو مضبوط اوپننگ جوڑی نہ مل سکی۔ سری لنکا کے خلاف اننگز کا آغاز کرتے ہوئے قدرے مشکل کنڈیشنز میں خرم منظور اور احمد شہزاد کی اوسط درجے کی سری لنکن میڈیم پیس باؤلنگ کے سامنے قلعی کھل گئی۔ دونوں اوپنرز میں تکنیکی خامیاں اب بھی موجود ہیں اور بیٹنگ کا بوجھ اٹھانے سے قبل انہیں ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کے لیے ہی کڑی محنت کی ضرورت ہوگی۔

مڈل آرڈر میں یونس اور مصباح کا ساتھ دینے کے لیے اظہر علی اور اسد شفیق شامل ہیں، جن کے بارے میں باآسانی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ ان دونوں عظیم بیٹسمینوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ سنبھالیں گے۔ مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے، کرنا اتنا ہی مشکل کیونکہ ابھی تک اظہر اور اسد کی بیٹنگ میں وہ پختگی اور ذمہ داری نہیں دکھائی دیتی ہے، جس کو نظر میں رکھتے ہوئے ان پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرلیا جائے۔ یہ دونوں بیٹسمین اب بھی طویل اور ذمہ دارانہ اننگز کھیلنےکے لیے مصباح اور یونس کی موجودگی کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ اظہر کی شارجہ میں بنائی گئی سنچری سونے میں تولے جانے کے قابل ہے، مگر وہ اننگز بحرانی حالات میں نہیں کھیلی گئی تھی۔ اسی طرح اسد شفیق نے بھی مشکل حالات میں بہت کم ہی ٹیم کو سہارا دیا ہے، بلکہ اس نوجوان بیٹسمین کے لیے ٹیسٹ ٹیم میں اپنی جگہ بچانا ہی اب ایک مہم بن چکا ہے۔ گزشتہ دورۂ جنوبی افریقہ میں ان کی دو سنچریاں بھی پاکستان کو شکست سے نہیں بچا سکی تھیں اور آخری پانچ اننگز میں تو بدترین انداز میں ناکام ہونے پر بعد اب اسد کے سر پر عمر اکمل کی تلوار لٹکنا شروع ہوگئي ہے۔ گال میں پہلے روز 28 سالہ اسد نے نصف سنچری تو ضرور بنا لی ہے لیکن 27 ٹیسٹ میچز کے تجربے کے ساتھ انہیں خود کو سمجھانا ہوگا کہ مستقل کارکردگی دکھاکر انہیں خود کو پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ کا بوجھ اٹھانے کےلیے تیار کرنا ہوگا۔

یہی صورت اظہر علی کے سامنے ہے، جو بہت باصلاحیت ہیں مگر گزشتہ سال کی بدترین کارکردگی کے بعد اس مرتبہ ٹیم میں اپنی جگہ کھو چکے ہیں اور شاید اسد کی طرح اظہر بھی اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں جت گئے ہیں۔ وقار یونس کی زیر نگرانی اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کرنے والے اظہر علی کے لیے وقار کی ہیڈ کوچ کی حیثیت سے واپسی اعتماد میں اضافے کا باعث بنے گی جبکہ اسد شفیق پر کسی دوسرے بیٹسمین کا دباؤ ڈالنے کے بجائے انہیں اعتماد ینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ صلاحیت تو دونوں میں موجود ہے مگر انہیں اپنے کھیل کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ یونس اور مصباح جیسے سینئر کھلاڑیوں کی جگہ سنبھال سکیں۔