اولڈ ٹریفرڈ میں انگلستان نے میدان مارلیا، بھارت کی شرمناک کارکردگی

2 1,031

انگلستان نے جامع کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اولڈ ٹریفرڈ میں بھارت کو صرف تین دن میں چت کردیا اور چوتھا و اہم ترین ٹیسٹ اننگز اور 54 رنز سے جیت کر سیریز میں دو-ایک کی ناقابل شکست برتری حاصل کرلی ہے۔

بھارت پہلی اننگز میں 152 اور دوسری میں 161 رنز پر آل آؤٹ ہوا  (تصویر: Getty Images)
بھارت پہلی اننگز میں 152 اور دوسری میں 161 رنز پر آل آؤٹ ہوا (تصویر: Getty Images)

دنیا کی بہترین بیٹنگ لائن اپ کا دعویٰ کرنے والا بھارت میچ کے ابتدائی چھ اوورز ہی میں ہتھیار ڈال چکا تھا جب صرف 8 رنز پر اس کی چار وکٹیں گرچکی تھیں جن میں گوتم گمبھیر، ویراٹ کوہلی اور مرلی وجے جیسے پائے کے بلے باز صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے تھے اور اس کے بعد پوری رام کہانی ناکامیوں سے عبارت رہی۔ کپتان مہندر سنگھ دھونی کی تمام تر کوشش کے باوجود پہلی اننگز میں مجموعہ صرف 152 رنز تک پہنچ پایا اور دوسری اننگز میں 215 رنز کے خسارے میں جانے کے بعد جب تیسرے دن بھارت کو دوبارہ بیٹنگ کا موقع ملا تو وہ ایک مرتبہ پھر بری طرح ناکام ہوا اور صرف 161 رنز پر ڈھیر کر انگلستان کو ایک بڑی فتح طشتری میں رکھ کر پیش کردی۔

یہ 67 سال بعد پہلا موقع تھا کہ انگلستان نے کوئی میچ صرف تین دن میں جیت لیا ہو اور ایک مرتبہ پھر اسے یہ اعزاز بھارت ہی کے خلاف حاصل ہوا۔ تیسرے و آخری دن وہ 53 رنز پر ایک کھلاڑی آؤٹ کی بہترین پوزیشن پر تھا لیکن آخری سیشن میں زخمی اسٹورٹ براڈ کی خدمات کے بغیر ہی انگلستان نے اسے صرف 28 اوورز میں چت کردیا۔

ابتدائی ڈھائی دن کی بدترین کارکردگی کے بعد بھارت کے لیے خوش خبری یہ تھی کہ اگلے دو دن مانچسٹر میں زبردست بارش کی پیش گوئی تھی۔ اگر بھارتی بلے باز اپنے حواس قابو میں رکھتے اور پوری توجہ کے ساتھ انگلش گیندبازی کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک سیشن گزار لیتے تو ہو سکتا تھا کہ آئندہ ایک سے ڈیڑھ دن کا کھیل ضائع ہونے کی صورت میں انہیں ایک مایوس کن ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔ لیکن معین علی کے سامنے ان کی ایک نہ چلی، جنہوں نے 4 وکٹیں حاصل کرکے سیریز میں اپنی وکٹوں کی تعداد کو 19 تک پہنچا دیا۔

بھارت کی دوسری اننگز میں واحد قابل ذکر مزاحمت روی چندر آشون نے کی جنہوں نے 56 گیندوں پر 46 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ کوئی اور بلے باز 27 رنز سے آگے نہیں بڑھ پایا۔

معین علی کی 39 رنز دے کر 4 وکٹوں کے علاوہ دو، دو کھلاڑیوں کو جمی اینڈرسن اور کرس جارڈن نے آؤٹ کیا جبکہ ایک وکٹ کرس ووکس نے حاصل کی۔

قبل ازیں انگلستان نے تیسرے دن کا آغاز 237 رنز چھ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ کیا۔ جو روٹ اور جوس بٹلر نے 67 رنز کی شراکت داری کو مزید آگے بڑھایا اور اتنے ہی رنز کا اضافہ کرکے اسکور کو 304 رنز تک پہنچا دیا۔ روٹ نے 161 گیندوں پر 77 اور بٹلر نے 130 گیندوں پر 70 رنز بنائے اور کھانے کے و قفے تک آؤٹ ہوگئے۔ سیریز میں روٹ کی شاندار کارکردگی کا سلسلہ اولڈ ٹریفرڈ میں بھی جاری رہا جس کے ساتھ ہی سیریز میں ان کے رنز کی تعداد 369 تک پہنچ گئی۔ 73.80 کے اوسط سے بنائے گئے ان رنز میں 154 کی شاندار اننگز کے علاوہ تین نصف سنچریاں بھی شامل ہیں۔ بہرحال، انگلستان نے اسٹورٹ براڈ اور کرس ووکس کی تیز رفتار بیٹنگ کی بدولت اسکور میں مزید 42 رنز کا اضافہ کیا۔ اس دوران براڈ نے ورون آرون کو دو مسلسل گیندوں پر دو شاندار چھکے رسید کیے لیکن تیسری گیند پر پل کھیلنے کی ناکام کوشش براڈ کو بہت مہنگی پڑ گئی کیونکہ گیند ان کے ہیلمٹ میں گھس کر ان کی ناک کی ہڈی توڑ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی اننگز میں اپنی شاندار باؤلنگ سے بھارت کی بیٹنگ لائن اپ کو بکھیرنے والے براڈ دوسری اننگز میں ایک اوور بھی نہ پھینک سکے لیکن اس کے باوجود بھارت کے بلے باز کوئی مزاحمت نہ کرسکے۔

پہلی اننگز میں 215 رنز کا خسارہ سہنے کے بعد بھارت نے کو دوسری اننگز میں سنبھل کر کھیلنے کی ضرورت تھی۔ آئندہ دو دنوں کے موسم کو دیکھتے ہوئے بہت ضروری تھا کہ وہ ایک سیشن کو کسی نہ کسی طرح نکال دیں۔ تیسرے دن چائے کے وقفے تک 53 رنز ایک کھلاڑی آؤٹ کی اسکور لائن کافی مطمئن کرنے والی تھی لیکن وقفے کے بعد گویا پچ میں نصب 'بارودی سرنگیں' پھٹ پڑیں۔ صرف 13 رنز کے اضافے سے پجارا، راہانے، کوہلی اور جدیجا سب میدان بدر ہوچکے تھے جن میں سے تین کو معین علی نے ٹھکانے لگایا۔ دھونی اور آشون نے ایک مرتبہ پھر لب گور پہنچنے والی اننگز کو بچانے کی کوشش کی لیکن اس مرتبہ سب بے سود رہا۔ دھونی خود ایک بہت غیر ضروری شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے جبکہ رہی سہی کسر بھوونیشور کمار کے رن آؤٹ نے پوری کردی۔ پوری ٹیم 43 اوورز میں 161 رنز پر ڈھیر ہوگئی اور دورے میں بھارت کا ایک اور سیاہ باب مکمل ہوا۔

چائے کے وقفے کے بعد بھارت نے صرف 108 رنز پر 9 وکٹیں گنوائیں، جس میں درمیان میں 13 رنز کے اضافے سے پانچ وکٹیں گنوانے کا 'کارنامہ' بھی شامل ہے۔

قبل ازیں بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد ایک اننگز میں سب سے زیادہ کھلاڑیوں کے صفر پر آؤٹ ہونے کا عالمی ریکارڈ برابر کیا۔ وجے، چی، کوہلی، جدیجا، بھووی اور پنکج 'بطخ' کے ساتھ میدان سے لوٹے اور یوں ایک اننگز میں 6 کھلاڑیوں کے صفر پر آؤٹ ہونے کا 'شرف' بھارت کو ملا۔ اگر دھونی 71 اور آشون 40 رنز کی اننگز نہ کھیلتے تو شاید اسکور تہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہوپاتا۔

انگلستان کی جانب سے پہلی اننگز میں براڈ نے صرف 25رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کرنے کی شاندار کارکردگی دکھائی جبکہ تین وکٹیں اینڈرسن کو اور ایک کرس جارڈن کو ملی۔

اس مظاہرے کے بعد بھلا کیا امید باقی رہ سکتی تھی؟ بھارت کے باؤلرز نے پھر بھی جان لڑائی ۔ گیری بیلنس اور این بیل کی تیسری وکٹ پر 77 رنز کی رفاقت کے خاتمے کے بعد انہوں نے 170 رنز تک انگلستان کی چھ وکٹیں بھی گرا دی تھیں اور پوری کوشش کی کہ میزبان زیادہ بڑی برتری حاصل نہ کرے لیکن بٹلر اور روٹ کی آخری جوڑی گلے کی پھانس بن گئی۔ دونوں نوجوان بلے بازوں نے 134 رنز جوڑ کر بھارت کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔

اسٹورٹ براڈ کو شاندار باؤلنگ ، اور ناک تڑوانے، پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ سیریز کا پانچواں اور آخری ٹیسٹ 15 اگست سے اوول میں کھیلا جائے گا جہاں بھارت کے سامنے صرف ایک ہدف ہوگا، مقابلہ جیت کر سیریز برابر کرنا۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی راہ فرار اس کے پاس نہیں ہے۔ لارڈز کے ٹیسٹ میں فتح کے علاوہ اس نے ایک دن بھی ایسی کارکردگی پیش نہیں کی، جسے سراہا جائے۔ انگلستان کے لیے بہت سے مثبت پہلو ہیں، اور وہ آخری ٹیسٹ کے ساتھ سیریز جیتنے کے لیے بھی فیورٹ ہوگا۔