[ریکارڈز] 450 رنز بنانے کے باوجود شکست، پاکستان نیا اضافہ

0 1,065

گال ٹیسٹ سے قبل پاکستان کو کبھی کسی ایسے میچ میں شکست نہیں ہوئی تھی جہاں اس نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 450 یا اس سے زیادہ رنز بنائے ہوں۔ لیکن سری لنکا کے خلاف سیریز کے پہلے ہی ٹیسٹ میں یہ "تمغہ" بھی پاکستان کے سینے پر سج گیا ہے۔

ان میں سب سے یادگار مقابلہ 1999ء کا برج ٹاؤن ٹیسٹ ہے جہاں برائن لارا کی ناقابل شکست اننگز نے ویسٹ انڈیز کو ایک وکٹ سے آسٹریلیا کے خلاف کامیابی دی (تصویر: Getty Images)
ان میں سب سے یادگار مقابلہ 1999ء کا برج ٹاؤن ٹیسٹ ہے جہاں برائن لارا کی ناقابل شکست اننگز نے ویسٹ انڈیز کو ایک وکٹ سے آسٹریلیا کے خلاف کامیابی دی (تصویر: Getty Images)

پاکستان نے اپنا آخری ٹیسٹ رواں سال کے آغاز میں سری لنکا ہی کے خلاف شارجہ میں کھیلا تھا جہاں ناقابل یقین انداز میں 302 رنز کا ہدف 58 ویں اوور میں حاصل کرکے سیریز بچائی تھی لیکن 8 ماہ بعد ہونے والے اگلے ٹیسٹ میں وہ پہلی اننگز میں 451 رنز بنانے کے بعد دوسری ہی اننگز میں 180 رنز پر ڈھیر ہوگیا اور سری لنکا نے 99 رنز کا ہدف صرف 16.2 اوورز میں حاصل کرکے پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کردیا۔

کرکٹ تاریخ میں آسٹریلیا وہ پہلی ٹیم ہے جسے دسمبر 1894ء میں انگلستان کے ہاتھوں سڈنی میں اس وقت شکست ہوئی جب وہ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 586 رنز بنانے کے باوجود میچ نہیں بچا سکا تھا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ اتنے بڑے مجموعے کے جواب میں انگلستان پہلی اننگز میں صرف 325 رنز پر آل آؤٹ ہوگیا تھا لیکن فالوآن کرتے ہوئے اس نے البرٹ وارڈ کی سنچری کی بدولت 437 کا مجموعہ اکٹھا کرلیا اور آسٹریلیا کو میچ جیتنے کے لیے صرف 177 رنز کا ہدف ملا۔ اس طرح کے مقابلوں میں ایک ٹیم کو ناقابل یقین حد تک برا کھیل پیش کرنا پڑتا ہے تبھی وہ بالادست پوزیشن سے مقابلہ ہارتی ہے اور آسٹریلیا کے ساتھ بالکل وہی ہوا۔130 رنز، دو کھلاڑی آؤٹ کے اسکور تک پہنچنے کے باوجود وہ بوبی پیل کا مقابلہ نہ کرسکا اور پوری ٹیم 166 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ انگلستان نے صرف 10 رنز سے میچ جیتا اور سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل کی۔

ان 12 مقابلوں میں سب سے دلچسپ اور یادگار میچ مارچ 1999ء میں برج ٹاؤن، بارباڈوس میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلا گیا، جہاں ویسٹ انڈیز صرف ایک وکٹ سے مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں کپتان اسٹیو واہ کے 199 اور رکی پونٹنگ کے 104 رنز کی مدد سے 490 رنز بنائے اور ویسٹ انڈيز کو 329 رنز تک محدود کیا۔ البتہ دوسری اننگز میں آسٹریلیا کورٹنی واش اور کرٹلی ایمبروز کے سامنے پہلی اننگز کی کارکردگی نہ دہرا سکا اور صرف 146 رنز پر پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی۔ اس کے باوجود ویسٹ انڈیز کو 308 رنز کا بہت مشکل ہدف ملا جس کے تعاقب میں وہ صرف 105 رنز پر پانچ کھلاڑیوں سے محروم ہوچکا تھا۔ اس مقام ویسٹ انڈین کپتان برائن لارا کی 153 رنز کی ناقابل شکست اننگز اور جمی ایڈمز کے 38 رنز کے بھرپور ساتھ نے بالآخر ویسٹ انڈیز کو ہدف تک پہنچا دیا، وہ بھی 9 وکٹوں کے نقصان پر۔ نویں وکٹ پر لارا اور ایمبروز کے درمیان 54 رنز کی شراکت داری نے ویسٹ انڈیز کو 302 تک پہنچا دیا لیکن ایمبروز آؤٹ ہوگئے اور باقی رنز لارا بنا کر ویسٹ انڈیز کو سیریز میں دو-ایک کی ناقابل شکست برتری دلا دی۔

مارچ 1968ء میں پورٹ آف اسپین میں ہونے والا ٹیسٹ اس لیے انوکھا ہے کہ اس میں گیری سوبرز کی زیر قیادت ویسٹ انڈیز نے دونوں اننگز ڈکلیئر کیں۔ پہلے دن کا کھیل بارش کی نذر ہونے کے بعد ویسٹ انڈیز نے پہلی اننگز میں 7 وکٹوں پر 526 رنز بنائے اور پھر انگلستان کو کھیلنے کا موقع دیا جو کپتان کولن کاؤڈرے کی سنچری کی مدد سے 404 رنز بنا پایا۔ ویسٹ انڈیز نے دوسری اننگز صرف 92 رنز دو کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کرکے انگلستان کو آخری پونے تین گھنٹے میں 215 رنز کا ہدف دیا جو اس نے دن کے آخری اوور کی شروعات سے پہلے ہی حاصل کرلیا۔ اس میں جیفری بائیکاٹ کے 80 اور کاؤڈرے کے 71 قیمتی رنز شامل تھے۔

اسی سے ملتا جلتا مقابلہ جنوری 2006ء میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے مابین سڈنی میں کھیلا گیا جہاں جنوبی افریقہ نے پہلی اننگز 451 رنز 9 آؤٹ پر ڈکلیئر کی۔ آسٹریلیا جواب میں 359 رنز بناسکا۔ جنوبی افریقہ نے میچ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اپنی دوسری اننگز 194 رنز 6 آؤٹ پر ڈکلیئر کردی اور یوں آسٹریلیا کو 76 اوورز میں 287 رنزکا ہدف ملا جو اس نے رکی پونٹنگ کے ناقابل شکست 143 رنز کی بدولت 61 ویں اوور ہی میں بنا لیے۔ یہ رکی پونٹنگ کے کیریئر کا 100 واں ٹیسٹ میچ تھا اور اس کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنا کر وہ کرکٹ تاریخ کے پہلے بلے باز بنے، جسے 100 ویں ٹیسٹ میں دو سنچریاں بنانے کا اعزاز ملا۔

پاک-لنکا حالیہ گال ٹیسٹ بھی ایسے ہی دلچسپ مقابلوں میں شمار ہوگا، جہاں سری لنکا آسمان پر منڈلاتے ہوئے سیاہ بادلوں اور ہاتھ سے نکلتے ہوئے وقت کے خلاف جدوجہد کرتا ہوا ہدف تک پہنچا۔ ابتدائی تین بلکہ چوتھے دن کے اختتام پر بھی شاید ہی کسی کو توقع ہوگی کہ یہ میچ نتیجہ خیز ثابت ہوگا لیکن دوسری اننگز میں رنگانا ہیراتھ کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے پاکستان کا صرف 180 رنز پر ڈھیر ہونا سری لنکا کو حتمی و فیصلہ کن ضرب لگانے کا موقع دے گیا، جس کا اس نے بھرپورفائدہ اٹھایا۔

ذیل میں ہم آپ کو ان 12 مقابلوں کے اعدادوشمار پیش کررہے ہیں جہاں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے 450 یا اس سے زیادہ رنز بنائے لیکن اس کے باوجود میچ میں شکست سے دوچار ہوئی:

پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 450 یا اس سے زیادہ رنز بنانے کے باوجود شکست کھانے والی ٹیمیں

شکست خوردہ ٹیم پہلی اننگز کا اسکور نتیجہ بمقابلہ شکست کا مارجن بمقام  بتاریخ
 آسٹریلیا 586/10 شکست انگلستان 10 رنز سڈنی دسمبر 1894ء
انگلستان 519/10 شکست آسٹریلیا 5 وکٹیں ملبورن مارچ 1929ء
انگلستان 496/10 شکست آسٹریلیا 7 وکٹیں لیڈز جولائی 1948ء
آسٹریلیا 520/10 شکست جنوبی افریقہ 6 وکٹیں ملبورن فروری 1953ء
ویسٹ انڈیز 526/7 شکست انگلستان 7 وکٹیں پورٹ آف اسپین مارچ 1968ء
آسٹریلیا 490/10 شکست ویسٹ انڈیز 1 وکٹ برج ٹاؤن مارچ 1999ء
جنوبی افریقہ 484/10 شکست انگلستان 9 وکٹیں اوول، لندن ستمبر 2003ء
آسٹریلیا 556/10 شکست بھارت 4 وکٹیں ایڈیلیڈ دسمبر 2003ء
جنوبی افریقہ 451/9 شکست آسٹریلیا 8 وکٹیں سڈنی جنوری 2006ء
انگلستان 551/6 شکست آسٹریلیا 6 وکٹیں ایڈیلیڈ دسمبر 2006ء
آسٹریلیا 478/10 شکست بھارت 7 وکٹیں بنگلور اکتوبر 2010ء
پاکستان 451/10 شکست سری لنکا 7 وکٹیں گال اگست 2014ء

ویسے اگر میچ میں پہلے بیٹنگ کرنے کی شرط ہٹا دی جائے تو پاکستان ماضی میں تین مرتبہ اپنی پہلی اننگز میں 450 سے زیادہ رنز بنانے کے باوجود شکست سے دوچار ہوا ہے۔ جنوری 1973ء میں ملبورن میں آسٹریلیا کے 441 رنز کے جواب میں پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں 574 رنز بنائے لیکن 133 رنز کی برتری اسے مقابلہ نہ جتوا سکی۔ آسٹریلیا نے 425 رنز بناکر پاکستان کو 293 رنز کا ہدف دیا لیکن قومی ٹیم صرف 200 رنز بنا سکی۔

اس کےعلاوہ دونوں مواقع 2006ء کے دورۂ انگلستان میں آئے جہاں ہیڈنگلے میں پاکستان نے انگلستان کے 515 رنز کے جواب میں 538 رنز بنائے۔ انگلستان نے دوسری اننگز میں 345 رنز بناکر پاکستان کو 323 رنز کا ہدف دیا اور ہمیشہ کی طرح اتنے بڑے ہدف کو دیکھ کر پاکستانی بلے بازوں کے ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ 155 رنز پر آل آؤٹ ہوگئے۔ گال ٹیسٹ سے قبل آخری بار اوول کے اس بدنام زمانہ ٹیسٹ میں پاکستان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا جہاں امپائر ڈیرل ہیئر نے پاکستان کے گیندبازوں پر بال ٹمپرنگ کا الزام عائد کیا تھا اور پاکستان کے کپتان انضمام الحق نے اس پر بطور احتجاج میچ کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔ بعد ازاں بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے انگلستان کو فاتح قرار دے دیا تھا۔ میچ میں پاکستان نے انگلستان کو پہلی اننگز میں 173 رنز پر آل آؤٹ کیا تھا اور اس کے جواب میں خود 504 رنز بنائے۔ جب میچ ختم ہوا تو انگلستان دوسری اننگز میں 298 رنز بنا چکا تھا۔ لیکن پھر پاکستان کے احتجاج کی وجہ سے مقابلہ جاری نہ رہ سکا اور بعد ازاں پاکستان کے نصیب میں شکست لکھ دی گئی۔