زوال پذیر سعید اجمل، پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ

5 1,062

سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے پہلے ہی میں نے اس خدشے کا اظہار کردیا تھا کہ صرف سعید اجمل پر حد سے زیادہ بھروسہ کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی پاکستانی ٹیم کو ایسی توقعات کی سزا مل چکی ہے، وہ گزشتہ چھ سالوں میں سری لنکا میں ایک بھی ٹیسٹ نہیں جیت پائی اور اب گال میں پھر برے حال سے دوچار ہوئی۔ ڈرا کی جانب گامزن مقابلہ آخری دن کے دو سیشنز میں گنوانے کے بعد نہ صرف پاکستان کاسری لنکا میں سیریز جیتنے کا خواب مسلسل بار چکناچور ہوا ہے کہ بلکہ آئی لینڈرز کے دیس میں شکست سے بچنا بھی گرین شرٹس کے لیے مشکل دکھائی دیتا ہوں۔ یوں گزشتہ ماہ عالمی درجہ بندی میں ملنے والی تیسری پوزیشن پر بغلیں بجانے والے ایک مرتبہ پھر چھٹی پوزیشن پر پہنچ جائیں گے۔

گزشتہ ڈیڑھ سال میں سعید اجمل پاکستان کو صرف ایک میچ جتوا پائے ہیں، وہ بھی زمبابوے کے خلاف (تصویر: AP)
گزشتہ ڈیڑھ سال میں سعید اجمل پاکستان کو صرف ایک میچ جتوا پائے ہیں، وہ بھی زمبابوے کے خلاف (تصویر: AP)

گال میں کپتان کی دفاعی حکمت عملی اور دوسری اننگز میں بلے بازوں کی غیر ذمہ داری کو پاکستان کی شکست کا سبب قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ وہ قدرے ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے باآسانی مقابلے کو ڈرا کرسکتے تھے۔ پاکستان نے پہلی اننگز میں 450 سے زیادہ رنز بنا کر میچ میں نفسیاتی برتری بھی حاصل کرلی تھی اور ماضی کے ریکارڈز بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلی اننگز میں اتنے زیادہ رنز بنانے کے بعد پاکستان کو کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ سری لنکا میں بھی کوئی ٹیم پہلی باری میں اتنا بڑا مجموعہ حاصل کرنے کے بعد شکست سے دوچار نہیں ہوئی۔ مگر گال میں سری لنکا نے انہونی کو ہونی کردیا، جس کا سبب بیٹسمینوں کی حد سے زیادہ دفاعی حکمت عملی اور رنگانا ہیراتھ کے خلاف نامعلوم دباؤ تھا۔ یہاں یہ نقطہ بہت اہم ہےکہ اگر پہلی باری میں 451 رنز بنانے کے بعد پاکستانی باؤلرز سری لنکا کے بیٹسمینوں کو فری ہینڈ نہ دیتے تو شاید پاکستان میچ میں جیتنے کے امکانات پیدا کرسکتا تھا۔

بہرحال، سری لنکا کے پہلی اننگز میں بنائے گئے 533 رنز کا سب سے بڑا سبب سعید اجمل کی غیر موثر کارکردگی تھی۔ انہوں نے اننگز کے خاتمے تک اپنے کھاتے میں پانچ وکٹوں کا اضافہ تو ضرور کیا لیکن پہلے 46 اوورز تک سعید کی وکٹ سے محرومی پاکستان کی شکست کی بنیادی وجہ بنی کیونکہ اسی دوران سری لنکا مقابلے پر حاوی ہوگیا۔ جب فرنٹ لائن باؤلر ہی وکٹوں کے حصول میں ناکام ہوجائے تو پھر جیت کی امید تو منوں مٹی تلے ہی دب جائے گی کیونکہ کسی بھی قسم کی وکٹ پر ٹیسٹ جیتنے کا بنیادی فارمولا حریف کی 20 وکٹیں حاصل کرنا ہے اور جب دنیا کا بہترین اسپنر 46 اوورز تک ایک وکٹ بھی حاصل نہ کرپائے تو میچ جیتنے کے بارے میں سوچنا بھی غلط ہے۔ دوسری باری میں جب سری لنکا کے بلے بازوں کے آگے بند باندھ کر میچ کو ڈرا تک پہنچانے کی ضرورت تھی تو سعید اجمل کی فیاضی نے ہدف کو ان کے لیے آسان ترین بنا دیا۔ یعنی جب پہلی اننگز میں وکٹیں لینا تھیں، تو رنز روکے اور دوسری اننگز میں جب رنز روکنا تھے تو اس میں بھی ناکام رہے۔

سری لنکا میں کھیلے گئے سات ٹیسٹ مقابلوں میں سعید اجمل کی وکٹوں کی تعداد گو کہ 34 ہے اور اوسط بھی کافی معقول ہے مگر پاکستان کا یہ چیمپئن باؤلر سری لنکا میں کبھی اپنی ٹیم کو ایک مقابلہ بھی نہیں جتوا سکا۔ یہی وہ باریک نقطہ ہے جو حالیہ عرصے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ میں فتوحات سے دور رکھے ہوئے ہے۔ ماضی میں ٹیم کا واحد اسپنر دانش کنیریا ہر دوسرے ٹیسٹ میں پانچ وکٹوں کا کارنامہ دکھاتا مگر اس کے بدلے اسے 150 سے زیادہ رنز کا جرمانہ بھی برداشت کرنا پڑتا اور یوں مخآلف ٹیم ایک بڑا مجموعہ حاصل کرلیتی۔ اب یہی صورتحال سعید اجمل کو درپیش ہے جو تسلسل کے ساتھ وکٹیں تو لے رہے ہیں مگر یہ وکٹیں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہیں۔

گال ٹیسٹ کے بعد سعید اجمل کا کیریئر اوسط اب 27.79 ہے جبکہ 2013ء سے اب تک کھیلے گئے ٹیسٹ مقابلوں میں یہ اوسط ذرا سا زیادہ یعنی 29.44 ہے جبکہ چار مرتبہ اننگز میں پانچ اور دو مرتبہ میچ میں دس وکٹوں کا کارنامہ سعید اجمل کو کسی طرح ناکام باؤلرز کی فہرست میں شامل نہیں کررہا۔ لیکن ان ڈیڑھ سالوں میں کھیلے گئے 11 ٹیسٹ مقابلوں میں سعید اجمل اپنی انفرادی کارکردگی سے پاکستان کو صرف ایک ٹیسٹ میچ جتوا پائے ہیں جب آف اسپنر نے 11 وکٹیں لے کر زمبابوے کو ٹھکانے لگایا تھا۔ اس سے قبل کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے خلفا 10 وکٹوں کی کارکردگی پاکستان کو شکست سے نہیں بچا سکی تھی۔ ابوظہبی میں جب پاکستان نے پروٹیز کو زیر کیا تھا تو سعید کی کارکردگی میچ میں 133 رنز کے عوض 6 وکٹیں تھی اور شارجہ میں سری لنکا کے خلاف جیتے گئے مقابلے میں سعید کو 80 اوورز میں 173 رنز کے عوض 5 وکٹیں ہی ملی تھیں۔ اس کے برعکس 2011ء اور 2012ء میں سعید اجمل نے 14 ٹیسٹ مقابلوں میں 22.41 کے اوسط سے 89 وکٹوں پر ہاتھ صاف کیا اور اس دوران جیتے گئے 8 ٹیسٹ میں سعید اجمل دو مرتبہ مرد میدان اور تین مرتبہ سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

ان دونوں ادوار کی کارکردگی کے جائزے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں سعید اجمل کی کارکردگی کا معیار تیزی سے گزر رہا ہے اور اب رہی سہی کسر باؤلنگ ایکشن کو مشکوک قرار دینے سے پوری ہوگئی ہے۔ سعید اجمل کی یہ زوال پذیر کارکردگی پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ موجودہ دور میں پاکستان کے لیے سعید اجمل کا کارکردگی دکھانا بہت ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا۔ اگر یہ سلسلہ مزید طول پکڑتا گیا تو عین ممکن ہے کہ سعید کو اپنے کیریئر کا اختتام صرف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے کھلاڑی کی حیثیت سے کرنا پڑے کیونکہ قومی ٹیم ٹیسٹ میں سعید اجمل کی ایسی کارکردگی کی مزید متحمل نہیں ہوسکتی۔