عالمی کپ کی تیاری، ہم کہاں کھڑے ہیں؟

5 1,052

ہرارے میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کے’’کرارے‘‘ اسٹروکس دیکھے تو حیرت ہوئی کہ دنیا کی سرفہرست ٹیمیں کس معیار کی کرکٹ کھیل رہی ہیں اور سبز وردیاں پہنے ہمارے کھلاڑی کہاں کھڑے ہیں؟ آسٹریلیا کے 327 رنز کے جواب میں جنوبی افریقہ نے 47 ویں اوور میں مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا، وہ بھی صرف تین وکٹوں کے نقصان پر۔ ژاک کیلس کے ایک روزہ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا تو فف دو پلیسی نے کیریئر کی پہلی اور فاتحانہ سنچری اسکورکرکے پروٹیز کو اطمینان دلا دیا کہ کیلس کی عدم موجودگی میں انہیں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ حتیٰ کہ پاکستان میں ’’دھکے‘‘ کھانے والا عمران طاہر بھی وکٹیں لینے لگا ہے جبکہ ہمارے سمیع اسلم کے ساتھ چند ماہ قبل جونیئر کرکٹ کھیلنے والا کوئنٹن ڈی کوک ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں سب سے کم مقابلوں میں ایک ہزار رنز مکمل کرنے کا ریکارڈ حاصل کرچکا ہے۔

اگر سعید اجمل غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کے باعث پابندی کا شکار بنتے ہیں تو پاکستان کی عالمی کپ کی ناقص تیاریوں کو فیصلہ کن ضرب پہنچے گی (تصویر: AFP)
اگر سعید اجمل غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کے باعث پابندی کا شکار بنتے ہیں تو پاکستان کی عالمی کپ کی ناقص تیاریوں کو فیصلہ کن ضرب پہنچے گی (تصویر: AFP)

یہ صرف جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کا تذکرہ ہے، اگر دیگر ملکوں کے نئے اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں کے کارناموں پر نظر ڈالیں تو شاید یہ تحریر ختم ہوجائے لیکن ان کے کارنامے ختم نہ ہوں۔ ڈیڑھ سال پہلے تک سری لنکا کے سلیکٹرز مہیلا جے وردھنے کی منتیں کررہے تھے کہ وہ ایک مرتبہ قومی ٹیم کی قیادت سنبھال لیں اور اب جے وردھنے اس اطمینان کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ سے رخصت ہوئے ہیں کہ نہ صرف ایک بہترین کپتان بلکہ ایک بھروسہ مند بلے باز بھی اینجلو میتھیوز کی صورت میں ٹیم میں موجود ہے، جو جے وردھنے کی کمی کو پورا کرے گا۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کرکٹکا یہ حال ہے کہ یہاں چلے ہوئے کارتوس دوبارہ چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ناکامیوں کی گٹھڑی سر پر اٹھائے کھلاڑی اپنے تجربے کی دہائیاں دیتے ہوئے دوبارہ قومی ٹیم میں پہنچ گئے ہیں کہ انہیں بھی عالمی کپ کھیلنے کا موقع مل جائے۔ اور جو ابھی ٹیم تک نہیں پہنچے انہوں نے ’’رابطے‘‘ تیز کردیے ہیں تاکہ عالمی کپ میں شرکت کے اہل قرار پائیں۔

یونس خان ایک روزہ طرز کی کرکٹ میں اپنی تمام تر ناکامیوں اور اوسط درجے کی کارکردگی کے باوجود ڈیڑھ سال بعد رنگین یونیفارم پہننے میں کامیاب ہوگئے اور صد فی صد انہیں آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات کی’’دوستانہ‘‘ وکٹوں پر بھی موقع ملے گا۔ لیگ کرکٹ میں کامیابی کے جھنڈےگاڑنے والے شعیب ملک نے بھی ذرائع ابلاغ پر اپنی ’’مہم‘‘ کا آغاز کردیا ہے کہ اگر انہیں عالمی کپ کھلانا ہے تو پھر فوری طور پر ٹیم میں شامل کیا جائے۔عبدالرزاق کا نام شاید بہت سے شائقین بھول گئے ہوں مگر ماضی کے مایہ ناز آل راؤنڈر نے وہاب ریاض اور فواد عالم کی طرح امریکہ میں دانش کنیریا کے ہمراہ کھیلنے کے جرم میں پانچ لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کردی ہے۔ عبدالرزاق ا سینٹرل کانٹریکٹس کا حصہ نہیں ہیں، اس لیے وہ باآسانی اس جرمانے سے صرف نظر کرسکتے تھے مگر ’’فوجی‘‘ نے قومی ٹیم میں واپسی کا آخری جوا پانچ لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کے ساتھ کھیلا ہے کہ شاید پی سی بی کی ’’فرمانبرداری‘‘ کے انعام میں انہیں ایک اور عالمی کپ کھیلنے کا موقع مل جائے ۔

ٹیسٹ کرکٹ میں زوال کے شکار سعید اجمل ایک روزہ طرز میں پاکستان کا سب سے اچھے باؤلر ہیں اور سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز کے پہلے دو مقابلوں میں پاکستان کے ديگر باؤلرز کی کارکردگی نے اس بات کو ثابت بھی کیا ہے۔ اسی لیے فیصلہ کن معرکے سے پہلے سعید اجمل کی واپسی نے مصباح الحق کا کئی سیر خون بڑھ گیا ہوگا کیونکہ وہ ان پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ لیکن سعید اجمل کے سر پر معطلی کی تلوار لٹک رہی ہے اگر خدانخواستہ مشکوک باؤلنگ ایکشن کو بنیاد بناتے ہوئے سعید اجمل پر پابندی عائد ہوگئی تو عالمی کپ میں پاکستان کی باؤلنگ لائن جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، بھارت اور انگلینڈ کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے سامنے کیا کارکردگی دکھائے گی، کہ جس سے سری لنکا کے نچلے آرڈر کے بیٹسمین بھی نہیں سنبھل رہے ۔

درحقیقت پاکستان کرکٹ کے لیے موجودہ صورتحال بہت گمبھیر ہے اور اسے سدھارنے کے لیے بہت کم وقت باقی بچا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو سوچنا ہوگا کہ اس وقت ہم دوسری ٹیموں کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں۔ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے فی الحال تو پاکستان کے عالمی کپ جیتنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ گرین شرٹس آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، بھارت، انگلینڈ اور سری لنکا سے بہت پیچھے ہیں۔ ی سی بی کو بہتر ٹیم بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ بورڈ کے اراکین اور عوام صرف منہ دیکھتے رہ جائیں گے!!