آسٹریلیا کے لیے سکھ کا سانس

2 1,046

جب 2012ء کے موسم سرما میں اُس وقت کا عالمی نمبر ایک انگلستان پاکستان کا سامنا کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات پہنچا تھا تو فتح و شکست کے درمیان فرق سعید اجمل تھے۔ اپنے ساتھی گیندبازوں عبد الرحمٰن اور محمد حفیظ کے ساتھ مل کر انہوں نے سیریز میں ریکارڈ 48 وکٹیں حاصل کیں جبکہ خود 14.70 کے اوسط سے 24 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے سیریز کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ جیتا۔ اس شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار انگلستان کے خلاف کلین سویپ کیا اور سعید اجمل بام عروج پر پہنچ گئے۔

آسٹریلیا پاکستان کے خلاف سیریز میں اس منظر سے خوفزدہ تھا، اب کم از کم یہ خطرہ تو اس کے سر سے ٹل ہی چکا ہے (تصویر: Getty Images)
آسٹریلیا پاکستان کے خلاف سیریز میں اس منظر سے خوفزدہ تھا، اب کم از کم یہ خطرہ تو اس کے سر سے ٹل ہی چکا ہے (تصویر: Getty Images)

اب، ایک اور حالیہ عالمی نمبر وَن، متحدہ عرب امارات آتے ہوئے جھجک رہا ہے۔ آسٹریلیا کو پاکستان کے خلاف 5 اکتوبر کو سیریز کا واحد ٹی ٹوئنٹی کھیلنا ہے جبکہ 22 اکتوبر کو پہلے ٹیسٹ سے قبل دونوں ٹیمیں تین ایک روزہ مقابلے کھیلیں گی اور امارات میں پاکستان کے سابقہ ریکارڈز اور اسپنرز کے لیے مددگار حالات کو دیکھتے ہوئے آسٹریلیا کے بلے بازوں کا پتہ پانی ہو رہا ہے۔ برصغیر اور اس سے ملتے جلتے حالات میں آسٹریلیا کے بلے بازوں کا کیا حال ہوتا ہے؟ صرف یہاں ہونے والی آخری سیریز کا نتیجہ حالت بیان کرنے کے لیے کافی ہے جہاں بھارت کے خلاف اسے چار ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کے تمام مقابلوں میں شکست ہوئی اور شکست بھی کوئی معمولی نہیں۔ پہلے ٹیسٹ میں 8 وکٹوں سے، دوسرے میں ایک اننگز اور 135 رنز سے اور تیسرے و چوتھے میں 6، 6 وکٹوں سے۔ سیریز میں بھارتی اسپنرز بالخصوص آف اسپنر روی چندر آشون نے آسٹریلوی بلے بازوں کو دن میں تارے دکھا دیے۔ چار مقابلوں میں انہوں نے 29 وکٹیں حاصل کیں اور سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

اب متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے بلے بازوں کو ویسے ہی حالات کا سامنا ہوگا جہاں مددگار وکٹوں پر سعید اجمل اور ہمنوا کینگروؤں کا شکار کھیلتے۔ لیکن ۔۔۔۔۔ سعید اجمل پر باؤلنگ ایکشن پر اعتراض اور پھر بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کی گئی جانچ کا نتیجہ اور پابندی آسٹریلیا کے لیے یقیناً سکھ کا سانس ہے۔

کیونکہ عالمی نمبر چھ پاکستان کے ہاتھوں شکست آسٹریلیا کو ٹیسٹ درجہ بندی میں سرفہرست مقام حاصل کرنے سے روک دیتی بلکہ مستقبل قریب میں بھی دوبارہ نمبر ایک بننے کے امکانات کا بھی خاتمہ کردیتی۔ اب دوسرے درجے کا پاکستانی باؤلنگ اٹیک آسٹریلیا کو کس طرح زیر کرے گا؟ یہ وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اپنے پسندیدہ ترین میدان پر بھی پاکستان اب آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں فیورٹ نہیں ہے۔