سعید اجمل کا معاملہ: آخر قصور کس کا؟

3 1,059

پاکستان کے ماہر گیندباز سعید اجمل پر پابندی کی خبر دنیا بھر میں کرکٹ کے پرستاروں پر بجلی کی طرح گری ہے۔ ایک ایسا باؤلر، جس نے زائد العمری میں بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا اور پھر ہر طرز کی کرکٹ میں خود کو ثابت کر دکھایا، پانچ سال کی سخت محنت کے بعد اس مقام پر پہنچا ہے تو اچانک اُس پر عقدہ کھلا کہ اس کا تو باؤلنگ ایکشن ہی غیر قانونی ہے۔ حالانکہ اپنے کیریئر کے ابتدائی لمحات میں وہ تمام تر لوازمات کو پورا کرکے اپنے باؤلنگ ایکشن کو شفاف قرار دلوا چکا ہے۔ کیا اس میں قصور سعید اجمل کا ہے؟

دو ماہ قبل کرکٹ قوانین کے رکھوالے ایم سی سی کے دو سو سالہ جشن پر ہونے والا تاریخی مقابلہ کھیلنے والے باؤلر کا درحقیقت باؤلنگ ایکشن ہی غیر قانونی تھا، یہ بات عقل سے بالاتر ہے (تصویر: Getty Images)
دو ماہ قبل کرکٹ قوانین کے رکھوالے ایم سی سی کے دو سو سالہ جشن پر ہونے والا تاریخی مقابلہ کھیلنے والے باؤلر کا درحقیقت باؤلنگ ایکشن ہی غیر قانونی تھا، یہ بات عقل سے بالاتر ہے (تصویر: Getty Images)

کسی بھی آف اسپنر کے ترکش کے مہلک ترین ہتھیار "دوسرا" کو آزمانے میں ماہر سعید اجمل 2009ء میں بھی باؤلنگ ایکشن پر تنقید کی زد میں آئے تھے یہاں تک کہ ان کے خلاف باضابطہ شکایت بھی لگائی گئی۔ جس پر انہوں نے آسٹریلیا میں واقع بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے منظور شدہ مرکز سے اپنے باؤلنگ ایکشن کی جانچ کروائی اور ثابت کروایا کہ ان کا باؤلنگ ایکشن بالکل درست ہے۔ اس کے بعد سے اب تک گو کہ دبے دبے لفظوں میں ہر شکست کھانے والی ٹیم سعید کے باؤلنگ ایکشن پر اعتراض کرتی آئی ہے لیکن قانون کے تمام تقاضوں پر پورا اترنے والا باؤلنگ ایکشن اسپن جادوگر کی پشت پر تھا یہاں تک کہ رواں سال جون میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل میں دو روزہ اجلاس میں ناقص باؤلنگ ایکشن کے حامل باؤلر کے خلاف غیر اعلانیہ کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر پہلے دو چھوٹے شکار کیے گئے، نیوزی لینڈ کے جزوقتی اسپنر کین ولیم سن اور ان کے بعد سری لنکا کے نوآموز باؤلر سچیتھرا سینانائیکے۔ ان دونوں پر پابندی عائد کرنے کے بعد بڑا شکار سعید اجمل! دورۂ سری لنکا میں گال میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں سعید اجمل کی 30 سے 35 گیندوں کو غیر قانونی قرار دے کر ان کے خلاف باضابطہ شکایت درج کروائی گئی اور پھر طویل و صبر آزما مراحل کے بعد نتیجہ آج سعید اجمل کے باؤلنگ کرنے پر پابندی کی صورت میں نکلا۔

اگر ہم اس معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے رویے کو دیکھیں تو کسی حد تک ہمیں انتظامی سطح پر خامیاں ضرور نظر آتی ہیں۔ پی سی بی نے سعید اجمل کا باؤلنگ ایکشن رپورٹ ہوجانے کے بعد تو کچھ پھرتی دکھائی ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں مشتبہ باؤلنگ ایکشن کے حامل گیندبازوں پر کڑی نظر رکھنے اور ان کے ایکشن کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن جب مختلف حلقوں کی جانب سے سعید اجمل جیسے پائے کے گیندباز کے باؤلنگ ایکشن پر انگلیاں اٹھائی جارہی تھیں تو اس وقت بورڈ نے آخر کیوں ان الزامات کو سنجیدہ نہیں لیا؟ اگر اسی وقت سعید اجمل کو تمام طرز کی کرکٹ میں بے دریغ استعمال کرنے کے بجائے انہیں کچھ آرام کا موقع دیا جاتا اور اس دوران اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے ان کی باؤلنگ کا جائزہ لیا جاتا اور خامیوں کو واضح کرکے ان پر قابو پانے کے لیے کام کیا جاتا تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بورڈ کے اہم عہدیداران کے مطمع نظر صرف کرسی و عہدوں کا حصول تھا تو انہیں آخر میدان میں ٹیم کی کارکردگی اور ایسے سنجیدہ نوعیت کے مسائل کیوں کر نظر آتے؟ معاملات خراب سے خراب تر ہوتے گئے یہاں تک کہ ٹیم کو حالیہ دورۂ سری لنکا میں بدترین شکست بھی ہوئی، سعید اجمل کا باؤلنگ ایکشن بھی رپورٹ ہوا اور سب سے بری خبر بھی کہ سعید اجمل پر پابندی لگا دی گئی۔ یعنی اس معاملے میں ہمیں کافی حد تک بورڈ کا قصور نظر آتا ہے۔

اب 'اصلی تے و ڈے مجرم' کی سنیں۔ ایک باؤلر 6 سالوں سے بین الاقوامی کرکٹ کھیل رہا ہے یہاں تک کہ حال ہی میں کرکٹ قوانین کے رکھنے میریلبون کرکٹ کلب کے دو صد سالہ جشن کے موقع پر ہونے والے تاریخی مقابلے میں ماضی و حال کے عظیم کھلاڑیوں کے شانہ بشانہ حصہ لے لیکن درحقیقت اس کا باؤلنگ ایکشن ہی درست نہ ہو۔ اس کی 446 بین الاقوامی وکٹیں، کئی بڑے اعزازات، تینوں طرز کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست 10 باؤلرز میں مقام، یہ سب دراصل اس کی بے ایمانی کا نتیجہ تھا؟ اب آخر کہنے کو کیا رہ جاتا ہے کہ آئی سی سی کے جغادریوں کی عقل کو 21 توپوں کی سلامی دینی چاہیے اس بات پر۔

درحقیقت غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کی جانچ کے لیے جتنے متنازع آئی سی سی کے گزشتہ ضوابط تھے، کہ جن کی چھلنی سے مرلی دھرن اور اُن جیسے کئی باؤلرز تک گزر گئے، ان سے کہیں زیادہ ہنگامہ خیز نئے ضوابط ہیں جن کے تحت رپورٹ ہونے والا کوئی باؤلر اب تک پابندی سے نہیں بچ پایا ۔ صرف گزشتہ دو ماہ میں سعید اجمل سمیت چار باؤلرز ان نئے ضوابط کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور دو مزید اپنے منطقی انجام کے انتظار میں ہیں۔

آسٹریلیا کے سابق بلے باز اور موجودہ تبصرہ کار ڈین جونز کے خیال میں کیا آپ "دوسرا" پر پابندی کے حق میں ہیں؟ درحقیقت یہ آف اسپن باؤلرز کے لیے موت کے پروانے پر دستخط ہیں۔ آئی سی سی نے پہلے تیز گیندبازوں کے پر کاٹنے کے لیے دونوں اینڈ سے الگ، الگ گیند کے استعمال جیسے قوانین متعارف کروائے تاکہ ریورس سوئنگ کسی بھی میچ میں فیصلہ کن کردار ادا نہ کرسکے اور پھر بلے بازوں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ ہتھوڑے نما بلے استعمال کریں اور منتظمین کو بھی کہ وہ جتنی چھوٹی باؤنڈریز چاہے رکھیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ کرکٹ بلے بازوں کا کھیل بن چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئی سی سی بلے بازوں کے لیے ابھرتے ہوئے ہر خطرے کو ختم کرنا چاہتی ہے اور "دوسرا" سے بڑھ کر خطرہ کون سا ہوسکتا ہے۔ عالمی درجہ بندی میں سرفہرست باؤلرز ہی دیکھ لیں، سعید اجمل، سنیل نرائن، روی چندر آشون، محمد حفیظ، یہ سب آف اسپنر ہیں۔

اگر کرکٹ کو بلے بازوں کا کھیل بنانا ہے تو اس میں سے آخر باؤلرز کو ختم ہی کیوں نہ کردیا جائے، اور بقول شخصے باؤلنگ مشینیں لگا دی جائیں، بلاوجہ باؤلرز کو ہاتھ گھمانے کی تکلیف دینا اچھی بات نہیں۔