شاہد آفریدی دوبارہ کپتان، کیا ریورس گیئر لگ چکا ہے؟

2 1,028

پانچ مہینوں کے طویل انتظار کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی پٹاری سے شاہد آفریدی کا نام نکلا ہے جنہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء تک کے لیے پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی ہے۔ مختصر ترین طرز میں کپتانی کے لیے نوجوان احمد شہزاد، فواد عالم اور صہیب مقصود کے نام زیر گردش تھے مگر بورڈ نے نیا تجربہ کرنے کے بجائے 34 سالہ شاہد آفریدی کو قومی دستے کی باگ ڈور دینے کا فیصلہ کیا جو اگلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی تک اپنی 36 ویں سالگرہ منا رہے ہوں گے۔ شاہد کو دو سال کے لیے قیادت دینے کے اعلان کے ساتھ ساتھ چیئرمین شہریار خان نے عالمی کپ 2015ء تک مصباح الحق کو ون ڈے کا کپتان برقرار رکھنے کی نوید بھی سنائی۔

فی الحال تو شاہد آفریدی کو کپتان بنانے کا فیصلہ بھلا معلوم ہو رہا ہے، مگر عالمی کپ کے بعد کیا ہوگا؟ (تصویر: Getty Images)
فی الحال تو شاہد آفریدی کو کپتان بنانے کا فیصلہ بھلا معلوم ہو رہا ہے، مگر عالمی کپ کے بعد کیا ہوگا؟ (تصویر: Getty Images)

1996ء سے قومی ٹیم میں شامل شاہد آفریدی تجربے کی دولت سے مالا مال ہیں اور جس دن وہ فارم میں آ جائیں، دنیا کے بڑے سے بڑے باؤلرکا بھی بھرکس نکال دیتے ہیں۔ اس لیے موجودہ صورتحال میں شاہد آفریدی کو قائد بنانے کا فیصلہ کافی حدتک درست دکھائی دیتا ہے لیکن اگلے دو سال تک کے لیے کپتان نامزد کرکے بورڈ نے شاید عجلت کا مظاہرہ کردیا ہے یعنی مستقبل کی طرف دیکھنے کے بجائے ریورس گیئر!

عالمی کپ 2015ء شاہد آفریدی اور مصباح الحق سمیت تمام سینئر کھلاڑیوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ممکنہ طور پر یہ ان کا آخری عالمی کپ ہوگا۔ پاکستان میں ہر عالمی کپ کے بعد تبدیلیوں کا ایک عمل شروع ہوتا ہے جس میں کپتانوں کو کپتانی اور کھلاڑیوں کو اپنے مقام سے ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی پاکستان کے سینئر کھلاڑیوں کا مستقبل عالمی کپ سےمشروط ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ میگا ایونٹ کے بعد مصباح الحق، شاہد آفریدی، یونس خان اور سعید اجمل، اگر وہ کھیل پائے تھے، جیسے سینئر کھلاڑی ایک روزہ فارمیٹ میں دوبارہ دکھائی نہیں دیں گے۔ کیا ایسی صورتحال میں شاہد آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنانا درست فیصلہ ہے؟ جو ٹیسٹ اور ایک روزہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سال بھر میں گنتی کے چند ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلیں گے؟

درحقیقت شاہد آفریدی کو کپتان مقرر کرکے قیادت کے سر اٹھاتے مسئلے کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس فیصلے کے باوجود یہ بحران بدستور موجود ہے کہ آنے والے مہینوں میں مصباح الحق کے بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ جانے کے بعد آخر ٹیسٹ اور ایک روزہ ٹیم کی قیادت کا بوجھ کون اٹھائے گا؟

دیگر ممالک کی ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی طرز سے اپنے کپتان کو گروم کرنا شروع کرتی ہیں اور اسے ٹیسٹ کرکٹ تک لاتی ہیں۔ اس ضمن میں مائیکل کلارک اور مہندر سنگھ دھونی دو واضح مثالی ہیں مگر پی سی بی ایسی روایات ڈالنے کا متمنی نہیں ہے کیونکہ یہ سنہرا موقع تھا کہ احمد شہزاد، فواد عالم یا صہیب مقصود میں سے کسی نوجوان کو مختصر طرز کی کرکٹ میں کپتانی سونپ کر مستقبل کے لیے تیار کیا جاتا۔ خاص طور پر ڈومیسٹک کرکٹ میں کپتانی کا تجربہ رکھنے والے فواد عالم بہت اچھا انتخاب ہو سکے تھے جو فرسٹ کلاس اور ٹی ٹوئنٹی طرز میں اپنی اہمیت ثابت کر چکے ہیں۔

فی الحال تو شاہد آفریدی کو کپتان بنانے کا فیصلہ بھلا معلوم ہو رہا ہے، مگر عالمی کپ کے بعد جب صورتحال تبدیلی ہوگی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا عالمی کپ کےبعد شاہد آفریدی سال بھر میں تین چار ٹی ٹوئنٹی میچز میں قومی ٹیم کی قیادت کرنے کے لیے سبز یونیفارم پہنیں گے یا پی سی بی کا تھنک ٹینک ایک مرتبہ پھر نئے کپتان کے اعلان کے لیے سر جوڑ کر بیٹھےگا؟