قومی ٹی ٹوئنٹی کپ: 300 کھلاڑیوں کے لیے صرف دو فزیو اور دو ٹرینر

0 1,015

قومی ٹی ٹوئنٹی کپ اپنے تمام تر ناقص انتظامات کے باوجود کراچی میں زوروشور سے جاری ہے۔ ایک جانب جہاں رات گئے اپنا آخری مقابلہ کھیلنے کے بعد نصف شب کو ہوٹل لوٹنے والی ٹیموں منہ اندھیرے اٹھ کر اسٹیڈیم کا رخ کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب ان ٹیموں سے بھی برا حال سپورٹنگ اسٹاف کا ہے۔

پی سی بی نے 300 سے زائد کھلاڑیوں کے لیے صرف دو فزیو اور دو ٹرینرز مقرر کر رکھے ہیں، اگر ان کی تعداد نہ بڑھائی گئی تو جیسے جیسے ٹورنامنٹ آگے بڑھے گا، کرکٹ کا معیار گرتا چلا جائے گا (تصویر: PCB)
پی سی بی نے 300 سے زائد کھلاڑیوں کے لیے صرف دو فزیو اور دو ٹرینرز مقرر کر رکھے ہیں، اگر ان کی تعداد نہ بڑھائی گئی تو جیسے جیسے ٹورنامنٹ آگے بڑھے گا، کرکٹ کا معیار گرتا چلا جائے گا (تصویر: PCB)

17 سے 28 ستمبر تک مسلسل 11 دن کے لیے جاری ٹی ٹوئنٹی کپ میں 35 مقابلے کھیلے جا رہے ہیں جن میں ابتدائی مرحلے میں ہر روز تین سے چار میچز طے ہیں اور اس کے بعد 27 ستمبر کو سیمی فائنل کھیلے جائیں گے اور 28 کو فائنل ہوگا۔ اتنے سخت شیڈول، اور 18 ٹیموں کا بڑا ٹورنامنٹ ہونے کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ نے محض اپنے اخراجات کو کم کرنے کے لیے شریک تمام ٹیموں کے فزیو، ٹرینرز اور وڈیو اینالسٹ فارغ کردیے اور ان سب کا کام دو فزیو، دو ٹرینرز اور ایک وڈیو اینالسٹ سے لیا جارہا ہے۔

نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں جاری ٹورنامنٹ میں عثمان غنی اور امتیاز خان فزیو کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جن میں سے امتیاز خان کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے ہیں اور پی سی بی کے ملازم بھی نہیں۔ اس کے علاوہ وڈیو اینالسٹ کی ذمہ داری تن تنہا ساجد ہاشمی نبھا رہے ہیں جبکہ راشد قریشی اور عمران خلیل ٹرینر کا کردارادا کررہے ہیں۔

اس مختصر سے عملے پر 18 ٹیموں کے تقریباً 300 کھلاڑیوں کو فٹ رکھنے کی ذمہ داری ہے، وہ بھی اس طرح کہ انہیں شاید رات کو پلک جھپکنے ہی کی اجازت ملتی ہوگی۔ ابتدائی مرحلے میں اس وقت قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے مقابلے صبح 9 بجے شروع ہوتے ہیں اور رات 12 بجے تک بغیرکسی وقفے کے جاری رہتے ہیں۔ عملے کو میچز کے آغاز سے کہیں پہلے میدان میں اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوتی ہیں اور نصف شب کو مقابلے ختم ہونے کے بعد بھی ہوٹل پہنچنے تک خاصا وقت صرف ہوتا ہے۔

اس صورتحال میں ایک جانب کھلاڑی سخت پریشان ہیں تو دوسری طرح 50 سے زیادہ افراد کی ذمہ داری پانچ افراد کو دینا صریح زیادتی ہے، اور پی سی بی کےکرتا دھرتاؤں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

قومی سطح کے اس بڑے ٹورنامنٹ کے لیے جو منصوبہ بندی بورڈ نے کی ہے وہ اب تک سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود، فیلڈنگ کو چھوڑ کر، بہت اچھی کرکٹ دیکھنے کو مل رہی ہے اور اگر بورڈ چاہتا ہے کہ کھلاڑی اسی محنت،لگن اور توانائی کے ساتھ کھیل پیش کرتے رہیں تو انہیں سپورٹنگ عملے کو بھی تازہ دم رکھنا ہوگا، بصورت دیگر جیسے جیسے ٹورنامنٹ آگے بڑھتا جائے گا، کھیل کا معیار گرتا چلا جائے گا۔