شکست کی 20 سالہ داستان، صرف ایک رن اور 7 وکٹیں

9 1,568

12 سال بعد پاکستان اور آسٹریلیا دو ٹیسٹ مقابلے کھیلنے کے لیے متحدہ عر ب امارات میں موجود ہیں۔ آج سے دبئی میں شروع ہونے والا پہلا ٹیسٹ ایک اہم سیریز کا آغاز کرے گا کیونکہ آسٹریلیا اب تک واحد ٹیم ہے جس نے متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے خلاف کوئی سیریز جیتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی ٹیم کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا یہاں تک کہ اپنے زمانے کے عالمی نمبر ایک انگلستان اور جنوبی افریقہ کو بھی۔ اس کے علاوہ آپ کو پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ کرکٹ تاریخ کے چند اعدادوشمار اور متعدد دلچسپ واقعات بھی بتاتے ہیں۔ آغاز کرتے ہیں 1959ء سے کہ جب 'بیس بال کی دنیا' امریکہ کے صدر نے تاریخ میں پہلی اور آخری بار کوئی کرکٹ میچ دیکھا۔

1۔ امریکہ کی تاریخ میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ کسی صدر نے اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھا ہو۔ دسمبر 1959ء میں امریکہ کے 34 ویں صدر ڈیوائٹ آئزن ہاور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور انہی ایام میں رچی بینو کی زیر قیادت آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان میں اپنے آخری ایام گزار رہی تھی۔ 4 سے 9 دسمبر تک کراچی میں کھیلا گیا سیریز کا تیسرا و آخری ٹیسٹ جاری تھا جس کے چوتھے دن پاکستان و امریکہ کے صدور میدان میں میچ دیکھنے پہنچے۔آئزن ہاور اور ایوب خان نے چوتھے دن کے پہلے سیشن سے قبل کھلاڑیوں سے ملاقات بھی کی۔ زیر نظر تصور میں مہمان صدر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کررہے ہیں۔

1۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ کسی کھلاڑی نے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں 150 سے زیادہ رنز بنائے ہوں اور یہ اعزاز آسٹریلیا کے ایلن بارڈر نے 1980ء میں پاکستان کے خلاف لاہور میں حاصل کیا تھا۔ بارڈر نے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں ناقابل شکست 150 رنز بنائے تھے جبکہ دوسری اننگز میں 153 رنز کی شاندار باری کھیلی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری اننگز میں بارڈر اظہر خان کی گیند پر جاوید میانداد کے ہاتھوں اسٹمپڈ آؤٹ ہوئے تھے۔ یہ اظہر خان کے کیریئر کا پہلا اور آخری ٹیسٹ تھا، جس میں ان کو واحد وکٹ یہی ملی اور اتفاق یہ ہے کہ میانداد کے کیریئر کی بھی پہلی اور آخری اسٹمپنگ یہی تھی۔

1۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین کھیلے گئے ٹیسٹ مقابلوں میں آج تک صرف ایک بار ہیٹ ٹرک ہوئی ہے۔ 1994ء میں ڈیمین فلیمنگ نے راولپنڈی میں اپنے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ کھیلا اور وہی ہیٹ ٹرک کرکے منفرد اعزاز حاصل کیا۔ البتہ اس ٹیسٹ میں سلیم ملک کی 237 رنز کی تاریخی اننگز نے پاکستان کو یقینی شکست سے بچا گئی، جنہیں بعد میں میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی ملا۔

1۔ پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ مقابلوں میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی کھلاڑی ایک ٹیسٹ میچ میں تمام وقت میدان میں موجود رہا ہو۔ یہ اعزاز پاکستان کے وکٹ کیپر تسلیم عارف کو حاصل ہے جو 1980ء میں فیصل آباد ٹیسٹ کے چاروں دن فیلڈ میں گزارے۔ اس میچ میں پہلے دن کا کھیل نہیں ہو سکا تھا اور آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اگلے دو دنوں تک 617 رنز تک بنائے۔ اگلے مزید دو دن پاکستان نے 126 اوورز کھیلے اور صرف دو وکٹوں پر 382 رنز جوڑے۔ تسلیم عارف اوپننگ کرنے کے لیے میدان میں اترے تھے اور 210 رنز پر ناٹ آؤٹ لوٹے۔ جی ہاں، مقابلہ بے نتیجہ ہی ثابت ہوا۔ اس ٹیسٹ کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آسٹریلیا نے پاکستان کی واحد اننگز میں اپنے تمام 11 کھلاڑیوں نے باؤلنگ کروائی تھی۔ یہ آسٹریلیا کی ٹیسٹ تاریخ کا واحد موقع ہے کہ اس کے ٹیم کے تمام اراکین نے ایک اننگز میں باؤلنگ کی ہو۔

1۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے ٹیسٹ میچز میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ صرف دو باؤلرز نے مل کو مخالف ٹیم کی تمام 20 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ یہ اکتوبر 1956ء میں پاکستان اور آسٹریلیا کی سیریز کا واحد ٹیسٹ تھا، نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا اور فضل محمود اور خان محمد ہی آسٹریلیا کے بلے بازوں کے لیے کافی ثابت ہوئے تھے۔ فضل نے میچ میں 13 اور خان محمد نے 7 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ یہ پاکستان کے گل محمد کا آخری ٹیسٹ تھا اور انہوں نے ہی فاتحانہ شاٹ کھیل کر پاکستان کو 9 وکٹوں سے مقابلہ جتوایا تھا۔

1۔ آسٹریلیا کے جیف موس نے اپنے کیریئر میں صرف ٹیسٹ کھیلا اور وہ بھی پاکستان کے خلاف 1979ء میں پرتھ کے مقام پر۔ وہ ٹیسٹ آسٹریلیا نے 7 وکٹوں سے جیتا تھا جس میں جیف موس نے فاتحانہ شاٹ پر ایک رن دوڑ کر آسٹریلیا کو کامیابی دلائی تھی۔

2۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ مقابلوں میں صرف 2 انفرادی اننگز ایسی ہیں جن کو معروف کرکٹ جریدے "وزڈن" نے 2001ء میں ٹاپ 100 میں شامل کیا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں باریاں پاکستان کی جانب سے کھیلی گئیں۔ 1994ء میں آسٹریلیا کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں سلیم ملک نے 237 رنز کی شاندار باری کھیلی تھی جس کو وزڈن نے 16 ویں نمبر پر رکھا۔ اعجاز احمد نے 1995ء میں سڈنی ٹیسٹ میں 137 رنز کی اننگز تراشی تھی جسے وزڈن نے 24 واں نمبر دیا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین ٹیسٹ مقابلوں میں ایسی کوئی اننگز نہیں پیش کی گئی جسے ٹاپ 100 اننگز میں شمار کیا جائے۔ یاد رہے کہ سلیم ملک کی 237رنز کی باری پاکستان کی طرف سے آسٹریلی کے خلاف کھیلی گئی سب سے بڑی اننگز بھی ہے۔

4۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 4 انفرادی باؤلنگ کارکردگیاں ایسی ہیں جنہیں وزڈن نے ٹاپ 100 بہترین باؤلنگ میں شمار کیا ہے۔ ان میں سے دو پاکستان کی طرف سے اور دو آسٹریلیا کی طرف سے ہیں۔ ان میں سرفراز نواز کی مارچ 1979ء کے ملبورن ٹیسٹ میں 86 رنز د ےکر 9 اور اقبال قاسم کی فروری 1980ء میں کراچی ٹیسٹ کی ایک ہی اننگز میں 49 رنز دے کر 7 وکٹوں کی کیریئر بیسٹ کارکردگیاں شامل ہیں۔ آسٹریلیا کی جانب سے ایشلے میلٹ کی دسمبر 1972ء کے ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں 59 رنز دے کر 8 پاکستانی بلے بازوں کو آؤٹ کرنے اور لنڈسے کلائن کی نومبر 1959ء لاہور ٹیسٹ کی ایک اننگز میں 75 رنز دے کر 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کی شاندار پرفارمنس شامل رہیں۔

3-0 ۔ 1982ء میں کم ہیوز کی قیادت میں آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی جہاں کراچی، فیصل آباد اور لاہور میں کھیلے گئے تینوں ٹیسٹ مقابلے پاکستان نے جیت اور آسٹریلیا کو تاریخی وائٹ واش کا شکار کیا۔ اس سیریز میں پاکستان کی قیادت عمران خان کے پاس تھی اور ذرا پاکستان کی فتوحات کے مارجن دیکھیں۔ پہلا ٹیسٹ 9 وکٹوں سے، دوسرا ٹیسٹ ایک اننگز اور 3 رنز سے اور تیسرا و آخری ٹیسٹ بھی 9 وکٹوں سے جیتا۔ ان تین مقابلوں میں عبدالقادر نے 22 اور عمران خان نے 13 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

13۔ پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ مقابلوں میں میچ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا کارنامہ پاکستان کے فضل محمود کا ہے۔ اکتوبر 1956ء میں آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان کھیلے گئے واحد ٹیسٹ میں فضل نے پہلی اننگز میں صرف 34 رنز دے کر 6 اور دوسری میں 80 رنز دے 7 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان نے 9 وکٹوں سے باآسانی میچ جیتا۔

20- پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتے ہوئے 20 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 1994ء میں مارک ٹیلر کی زیر قیادت آسٹریلیا کا دستہ تین ٹیسٹ کھیلنے لیے پاکستان آیا تھا جہاں پاکستان نے ایک-صفر سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سیریزکا پہلا ٹیسٹ کراچی میں کھیلا گیا تو جو پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے جیتا جبکہ باقی دونوں مقابلے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔ اس سیریز میں پاکستان کی قیادت سلیم ملک کے پاس تھی ۔ اس کے بعد آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف مسلسل 6 باہمی ٹیسٹ سیریز جیتیں یہاں تک کہ 2010ء میں انگلستان میں ہونے والی پاک-آسٹریلیا سیریز ایک-ایک سے برابر ہوئی۔

112۔ آسٹریلیا کے خلاف 2002ء میں شارجہ ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں پاکستان نے مجموعی طور پر 112 رنز بنائے۔ ٹیم پہلی اننگز میں 59 رنز پر ڈھیر ہوئی، جو اس وقت پاکستان کا کم ترین مجموعہ تھا لیکن اگلے ہی دن دوسری اننگز میں 53 رنز پر آل آؤٹ ہوئی اور یوں ایک ہی دن میں اپنا ریکارڈ توڑ ڈالا۔ یہ 112 رنز ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی ٹیم کا چوتھا کم ترین مجموعہ ہے۔

334 ۔ مارک ٹیلر نے 1998ء میں پاک-آسٹریلیا پشاور ٹیسٹ میں 334 رنز کی ناقابل شکست باری کھیلی تھی۔ دونوں ملکوں کے مابین کھیلے گئے میچز میں یہ واحد ٹرپل سنچری ہے۔

398 ۔ اسی پشاور ٹیسٹ میں مارک ٹیلر 398 اوورز تک میدان میں موجود رہے (255 اوورز بیٹنگ اور اس پھر 173 اوورز فیلڈن)۔ یہ پاک-آسٹریلیا مقابلوں میں یسی بھی کھلاڑی کا سب سے زیادہ اوورز تک میدان میں کھڑے رہنے کا ریکارڈ ہے۔

888۔ یہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے گئے ٹیسٹ مقابلوں میں کسی بھی ٹیم کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔ 1998ء میں ارباب نیاز اسٹیڈیم، پشاور میں کھیلے گئے اسی ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 4 وکٹوں پر 599 اور دوسری میں 5 وکٹوں پر 289 رنز بنائے تھے۔ یہ مقابلہ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوا تھا۔
1/7۔ ایلن بارڈر نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی سنچری پاکستان کے خلاف 1979ء کے ملبورن ٹیسٹ میں بنائی تھی۔ بارڈر کی 105 رنز کی شاندار اننگز بھی آسٹریلیا کو شکست سے نہ بچا سکی اور پاکستان نے سرفراز نواز کے ایک تاریخی اسپیل کی بدولت 71 رنز سے کامیابی حاصل کی۔ سرفراز نے اسپیل میں صرف ایک رن دے کر 7 آسٹریلوی بلے بازوں کو آؤٹ کیا تھا۔ اننگز میں انہوں نے 86 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

اعدادوشمار کے بعد آپ کی توجہ پاک-آسٹریلیا مقابلوں کے ناخوشگوار ترین واقعے کی طرف مبذول کرائیں گے۔ 1981ء میں دونوں ٹیموں کے مابین پرتھ ٹیسٹ میں بلے باز جاوید میانداد اور باؤلر ڈینس للی دست و گریباں ہوتے ہوتے رہ گئے۔ جاوید میانداد رن لینے کے لیے دوڑ رہے تھے جب للی نے جان بوجھ کر میانداد کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ میانداد کے احتجاج پر للی نے امپائر کی موجودگی میں پاکستانی بلے باز کو لات ماری جس پر میانداد نے ان کی طرف بلّا لہرایا۔ یہ واقعہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہے اور آج بھی اس بدمزگی کی یاد دلاتا ہے۔

اب جاتے جاتے آپ کی توجہ پاکستان کی فیلڈنگ کی جانب دلاتے چلیں کہ 2013ء اور 2014ء کے دوران ٹیسٹ مقابلوں میں آسٹریلیا کی ٹیم نے سب سے کم یعنی 17 فیصد کیچ ڈراپ کیے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی ٹیم نے 29 فیصد کیچ چھوڑ کر چوتھا مقام حاصل کیا ہے۔ باؤلرز جان توڑ محنت کے بعد کوئی موقع پاتے ہیں اور اگر وہ بھی فیلڈر کی نااہلی کی وجہ سے ضائع ہوجائے تو پوری ٹیم کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے۔