کیونکہ یونس ریلائبل ہے!

5 1,082

سری لنکا کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں اسپن جادوگر مرلی دھرن کے سامنے جب پاکستان اپنی دوسری اننگز میں صرف 65 رنز کی برتری کے ساتھ 8 وکٹیں گنوا چکا تھا تو پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے نوجوان بلے باز نے وسیم اکرم کے ہمراہ 145 رنز کی شراکت داری کے ذریعے پہلی ہی آزمائش میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ آج 14 سال بعد یہی بلے باز پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل کرچکا ہے، جسے دنیا یونس خان کے نام سے جانتی ہے۔

نجانے کیوں دبئی ٹیسٹ میں یونس خان کی یادگار کارکردگی کے بعد ٹی وی پر چلنے والے ایک معروف ریفریجریٹر کے اشتہہار کا مشہور جملہ ذہن میں گھوم رہا ہے، اس میں ذرا تحریف کرتے ہیں "کیونکہ یونس ریلائبل (Reliable) ہے"

ساتویں نمبر پر کھیلتے ہوئے پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے یونس خان نے پہلے ہی امتحان میں ثابت کر دکھایا تھا کہ نہ تو وہ پسند کی پوزیشن پر بیٹنگ کروانےکا محتاج ہے اور نہ کسی خاص پچ، کمزور باؤلنگ اٹیک یا پھر دوسرے بلے بازوں کی کارکردگی کے بل بوتے پر 'بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے' کی عادت رکھتا ہے۔ مرلی دھرن کے سامنے اپنے کیریئر کے اولین ٹیسٹ میں ہی ٹیم کو دباؤ سے نکال کے فائٹنگ پوزیشن پر لاکر یونس نے جیسا آغاز لیا، بعد میں ان کی عادت بن گیا۔ صرف ایک سال بعد آکلینڈ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی دوسری ٹیسٹ سنچری نے بھی ٹیم کو فاتحانہ پوزیشن پر لاکھڑا کردیا تھا۔ یوں یونس کسی بھی صورتحال میں ایک "فائٹر" کی طرح جدوجہد کرکے ٹیم کی نیّا پار لگانے والے منفرد پاکستانی بیٹسمین بن گئے۔

2005ء کے دورۂ بھارت میں بنگلور میں کھیلے گئے ٹیسٹ کے دوران صرف 7 رنز پر دو وکٹیں گرنے کے بعد سیریز برابر کرنے کے لیے قومی ٹیم پر سخت دباؤ تھا۔ اس مرحلے پر یونس نے اپنے کیریئر کے عروج پر موجود ہربھجن سنگھ اور انیل کمبلے کی وہ درگت بنائی، جسے دیکھنے والے آج تک فراموش نہیں کرسکے۔ 267 رنز کی لازوال کارکردگی نے بھارتی اسپنرز پر ایسی دھاک بٹھائی کہ پھر وہ پورے کیریئر میں یونس سے دور بھاگتے نظر آئے۔

اگلے ہی سال بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا تو یونس نے روایتی حریف کے خلاف کارکردگی کا سلسلہ وہیں سے جوڑا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ لاہور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں 199 اور پھر فیصل آباد میں194 رنز کی دو ایسی باریاں کھیلیں، جنہیں آج تک کوئی نہیں بھول سکا۔ بدقسمت ضرور رہے کہ دو مرتبہ ڈبل سنچری کے اتنا قریب پہنچ کر بھی حاصل نہ کرسکے لیکن اپنی کلاس ضرور ثابت کردی۔ پھر اگست میں پاکستان انگلسان کے دورے پر گیا تو وہاں تیز باؤلرز کے لیے سازگار حالات میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ہیڈنگلے میں 173 رنز کی اننگز کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا کہ وہ محض برصغیر کی وکٹوں کے ماہر نہیں ہیں۔ 2007ء میں جنوبی افریقہ کے دورۂ پاکستان میں یونس خان کی دو سنچریاں اسکور بورڈ کی زینت بنیں۔ پھر 2009ء میں اپنے 'ہوم گراؤنڈ' کراچی میں انہوں نے سری لنکا کے خلاف ٹرپل سنچری بنا کر اپنا نام عظیم بلے بازوں کی فہرست میں شامل کروالیا۔

انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد یونس خان نے پاکستان کی ڈگمگاتی ہوئی بیٹنگ لائن کو تھاما اور کئی نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر انتہائی دباؤ میں نہ صرف خود کھیلے بلکہ اظہر علی، احمد شہزاد اور اسد شفیق جیسے کھلاڑیوں کا بھی حوصلہ بلند کیا۔ ابھی گزشتہ سال دورۂ جنوبی افریقہ میں ہی جب کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں 33 رنز پر چار وکٹیں گنوانے کے بعد پاکستانی بیٹنگ لائن اسٹین اینڈ کمپنی کے ساتھ بری طرح ہچکولے کھا رہی تھی،تو یونس خان نے ماہر ملاح کی طرح نوجوان اسد شفیق کے ساتھ مل کر ڈبل سنچری شراکت داری سے ٹیم کو مشکلات سے نکالا۔ سینئر کھلاڑی کے ہمراہ مضبوط باؤلنگ لائن کے خلاف مشکل حالات میں کھیلی گئی اننگز سے اسد شفیق نے بھی اعتماد حاصل کیا اور اسی کی بدولت وہ آج تک ٹیم میں موجودہیں۔

یونس خان کا پاکستان کرکٹ پر وہ احسان ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی یاد دلاتا رہے گا بلکہ ہمیں حقیقی قدر اسی وقت ہوگی۔ ابھی 26 ستمبر کو ایک روزہ اسکواڈ سے اخراج کےبعد نیشنل اسٹیڈیم میں کراچی میں یونس خان جس طرح سلیکشن کمیٹی پر برسے تھے، اس نے ان کے کیریئر پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا تھا لیکن بورڈ نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور 'ہیرو' کی غلطی کو نظرانداز کرکے میدان میں اتارا اور ایک ہی میچ میں انہوں نے ایسا جواب دیا ہے کہ اب کسی سوال کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ احمد شہزاد کے ساتھ مل کر انہوں نے جس طرح پاکستان کی جیت کی بنیاد رکھی ہے، وہ قومی کرکٹ کے مستقبل کے حوالے سے شائقین کا دل بڑا کرنے کے لیے بھی کافی ہے۔

ٹرپل سنچری، پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ سنچریاں اور پھر آسٹریلیا جیسی ٹیم کے خلاف دونوں اننگز میں سنچریاں یونس خان کو پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین بلے بازوں میں مقام دلا چکی ہیں اور اب وہ دن بھی دور نہیں جب یونس خان جاوید میانداد کے 8832 رنز کے ریکارڈ کو بھی عبور کرکے قومی کرکٹ کے ہر اہم ریکارڈ کے تن تنہا مالک بن جائیں گے۔