یہ معجزہ ہی تھا!!

1 1,050

معجزہ صرف یہی تو نہیں کہ 9 ٹیموں میں پوائنٹس ٹیبل پر آٹھویں نمبر پر موجود ٹیم ورلڈ کپ جیت جائے بلکہ معجزہ تو یہ بھی ہے مصباح الحق آسٹریلین باؤلرز چیر پھاڑ کر ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی تیز ترین سنچری اسکور کرڈالیں اور ویسٹ انڈیز کے جارح مزاج بیٹسمین ویوین رچرڈز کے ساتھ آ کھڑے ہوں۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے کہ جن لوگوں نے مصباح الحق کو ’’ٹک ٹک‘‘ کا نام دیا تھا آج وہی پاکستانی کپتان کو ’’ماسٹر بلاسٹر‘‘اور ’’بوم بوم‘‘ کانام دینے پر مجبور ہوگئے ہیں؟

شدید ترین دباؤ کے باوجود مصباح کی کارکردگی نے منظرنامہ ہی بدل کر رکھ دیا (تصویر: Getty Images)
شدید ترین دباؤ کے باوجود مصباح کی کارکردگی نے منظرنامہ ہی بدل کر رکھ دیا (تصویر: Getty Images)

آسٹریلیا کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں کامیابی کے ساتھ پاکستانی ٹیم نئی تاریخ رقم کرچکی ہے اور اس سیریز میں پاکستانی ٹیم نے اتنے ریکارڈز بنا ڈالے ہیں کہ جتنے ریکارڈز گزشتہ کئی برسوں میں قائم نہیں ہوسکے۔ اس سیریز میں کئی کھلاڑیوں نے انفرادی کارکردگی دکھا کر قومی ٹیم میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے جبکہ نئے اسپنرز کی جوڑی نے سعید اجمل کو بھلا دیا ہے لیکن میں یہی سوچ رہا ہوں کہ آخر وہ کون سا ’’ایکس فیکٹر‘‘ تھا جس نے پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف ایسی عظیم کامیابیاں دلوائیں؟

اگر ذرا سا ماضی میں جائیں توپتہ چلتا ہے کہ پاکستانی ٹیم مشکلات کاشکار تھی۔ مارچ میں ایشیا کپ کے دفاع میں ناکام رہنے والی پاکستانی ٹیم ورلڈ ٹی20 کے سیمی فائنل کے لیے بھی کوالیفائی نہ کرسکی ۔سری لنکا کے دورے پر ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں شکست اور پھر آسٹریلیا کے خلاف ٹی20میچ ہارنے کے بعد پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ نتائج کسی بھی ٹیم، کسی بھی کپتان کے حوصلے توڑ دینے کے لیے کافی ہیں اور خاص طور پر جب کپتان کے خلاف سازشیں بھی ہورہی ہوں، سیریز کے دوران اسے ایک میچ سے ’’ڈراپ‘‘ بھی کیا جائے اور آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کو اس کے مستقبل سے مشروط کردیا جائے تو ان مشکلات سے نکلنا کسی عام کھلاڑی کے بس کی بات نہیں ہے۔

میں نے ’’کرک نامہ‘‘ کے لیے اپنے آخری کالم میں لکھا تھا کہ اگر ٹیم انتظامیہ مصباح الحق کو رسوائی کے ساتھ کیرئیر کا خاتمہ کرنے پر مجبور کررہی ہے تو اس میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی خاموشی معنی خیز ہے، جنہوں نے چند دن پہلے مصباح الحق کو ورلڈ کپ تک کپتان نامزد کیا ہے۔ چیئرمین کی اسی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مخصوص لوگ مصباح الحق کو عین ورلڈ کپ سے پہلے کپتانی سے ہٹوا کر نشان عبرت بنانا چاہتے تھے، جس کا نتیجہ اس نازک مرحلے پر ٹیم میں انتشار کے علاوہ کچھ نہ نکلتا۔ لیکن جیسے ہی چیئرمین پی سی بی کا بیان سامنے آیا، پاکستان کرکٹ بہتری کی جانب گامزن ہوگئی اور اب مصباح کو کپتانی سے ہٹانے کی کوششیں کرنے والوں کو اب اپنی ڈبل نوکریاں بچانے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔

آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ون ڈے میں پاکستان کی ایک رن سے شکست بھی ایک معجزہ تھا اور شاید یہ واحد شکست تھی جس نے بہت سے پاکستانیوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ شدید دباؤ کے عالم میں مصباح نے پہلے ٹیسٹ میں انفرادی طور پر بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے آسٹریلیا کو شکست دی تو منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا اور پھر ابوظہبی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریوں اور سب سے بڑی فتح نے مصباح الحق کو کامیابی اور احترام کے ہمالیہ تک پہنچا دیا ہے اس لیے اب ناقدین بلکہ ’’حاسدین‘‘کو رائے زنی کرنے سے قبل صرف اتنا سوچ لینا چاہیے کہ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے کسی شخص کی جانب تھوکنے کا انجام کیا ہوتا ہے!!