اب کیا فائدہ ’’لالا‘‘ جی!!

7 1,084

پیڑ پر لگے پھل کو بھی اگر درست وقت پر نہ اتارا جائے تو وہ گل سڑ جاتا ہے۔ درست وقت پر فیصلے کی اہمیت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے؟ مگر شاہد خان آفریدی میدان کے ساتھ ساتھ اس سے باہر بھی درست وقت کا انتخاب کرنا بھول جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی یاداشت ضرور کمزور ہوگی مگر شائقین کرکٹ اور صحافی ’’لالا‘‘ کی باتوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ابھی بہت زیادہ دن نہیں گزرے کہ آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میں کپتانی کے بعد شاہد آفریدی نے واضح الفاظ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جلد از جلد فیصلہ کرے کہ عالمی کپ میں قیادت کے فرائض کس کو سونپے جائیں گے۔ اس عجلت کی وجہ شاید یہ ہو کہ اگر شاہد آفریدی کو کپتان بنایا جائے تو وہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے مناسب وقت بھی پائیں لیکن آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی تاریخی ٹیسٹ سیریز جیت کے بعد اب شاہد پچھلے قدموں پر چلے گئے ہیں، اور ایک مرتبہ پھر مصباح کو قیادت کے لیے موزوں قرار دیا ہے۔

شاہد آفریدی قیادت کا ڈول ڈالنے سے پہلے اگر موجودہ کپتان کو سپورٹ کرنے کا اعلان کرتے تو انہیں سبکی نہ اٹھانا پڑتی (تصویر: AFP)
شاہد آفریدی قیادت کا ڈول ڈالنے سے پہلے اگر موجودہ کپتان کو سپورٹ کرنے کا اعلان کرتے تو انہیں سبکی نہ اٹھانا پڑتی (تصویر: AFP)

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ ’’اپنے کیریئر میں کپتانی سمیت بہت کچھ حاصل کرچکا ہوں، اس لیے اب قیادت کی خواہش نہیں اور نہ ہی وہ اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ‘‘ ابھی چند ماہ قبل ہی مصباح الحق کو سپورٹ کرنے کا دعویٰ کرنے والے آفریدی نے صرف چند مقابلوں میں شکست اور مصباح کی ناقص فارم کے بعد قیادت کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور انہیں ڈریسنگ روم میں چند ایسے کردار بھی مل گئے جنہوں نے مصباح کو آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ سے باہر بٹھا کر قیادت کا تاج ’’لالا‘‘ کے سر پر سجا دیا۔

اگر شاہد آفریدی کی اس بات میں صداقت ہے کہ اب انہیں قیادت کا شوق نہیں، تو تیسرے ایک روزہ کے بعد انہیں عالمی کپ میں کپتانی کا خواب نہیں دیکھنا چاہیے تھا بلکہ مشکل وقت میں اپنے کپتان کا سہارا بننے کی کوشش کرتے۔ لیکن جب پاکستان کرکٹ پر مشکل وقت آتا ہے تو شاہد آفریدی کپتان کا ساتھ دینے کے بجائے اپنا راستہ صاف کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ 2005ء کے دورۂ ویسٹ انڈیز میں جب انضمام الحق کی عدم موجودگی میں کپتان یونس خان کو مشکلات کا سامنا تھا تو شاہد آفریدی نے ایک ٹیسٹ میچ میں اننگز کا آغاز کرنے سے انکار کردیا تھا۔

درحقیقت، آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میں پاکستان کی محض ایک رن سے شکست نے شاہد آفریدی کا کیس کمزور کیا مگر اس کے باوجود انہوں نے بورڈ کے کانوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش ضرور کی کہ عالمی کپ کے لیے قیادت انہیں دی جائے۔ اس کے علاوہ بورڈ کے اندر ان کے خیر خواہوں نے بھی مشورہ دیا کہ وہ بہتر وقت کا انتظار کریں جو غالباً آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بعد آ سکتا تھا۔ اگر پاکستان آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہار جاتا تو کیا شاہد آفریدی’’ملک کیلئے حاضر ہوں‘‘ جیسا بیان دے کر سامنے نہ آتے؟

اب آسٹریلیا کے خلاف تاریخی ٹیسٹ فتوحات نے شاہد آفریدی کے دوبارہ کپتان بننے کا باب تو تقریباً بند کردیا ہے اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ مصباح الحق کو سپورٹ کرنے کے بیانات دیں۔ لیکن اب وقت گزر چکا ہے، تیسرے ایک روزہ کے بعد کہے گئے الفاظ تیر کی طرح کمان سے نکل چکے، اور اب واپس نہیں آسکتے۔ اگر اس طرح کا واقعہ آسٹریلیا یا انگلستان میں پیش آتا تو ایسے کھلاڑی کو نجانے کب کا نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر دھر لیا جاتا۔