پاکستان ایک ہی دن میں عرش سے فرش پر

0 1,037

فلپ ہیوز کے انتقال کی روح فرسا خبر کی وجہ سے جیسے ہی پہنچی، پاک-نیوزی لینڈ تیسرے و اہم ترین ٹیسٹ میں بھی ایک دن کا وقفہ آ گیا۔ دونوں ممالک کے بورڈز نے گزشتہ روز فیصلہ کیا تھا کہ ٹیسٹ کے دوسرے دن کے کھیل کو ایک روز کے لیے موخر کردیا جائے اور یوں دوسرے دن کا کھیل جمعرات کے بجائے جمعہ کو کھیلا گیا۔ لیکن کسے معلوم ہوگا کہ ایک دن کا وقفہ میچ کا پانسہ ہی پلٹ دے گا؟

برینڈن میک کولم نے صرف 78 گیندوں پر نیوزی لینڈ کی تاریخ کی تیز ترین ٹیسٹ سنچری بنائی اور 153 رنز پر ناقابل شکست ہیں (تصویر: AFP)
برینڈن میک کولم نے صرف 78 گیندوں پر نیوزی لینڈ کی تاریخ کی تیز ترین ٹیسٹ سنچری بنائی اور 153 رنز پر ناقابل شکست ہیں (تصویر: AFP)

پاکستان جو آسٹریلیا کو بری طرح زیر کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف بھی سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل کیے ہوئے ہے، محض ایک دن میں عرش سے فرش پر آ گیا ہے۔ جب شارجہ ٹیسٹ کا پہلا دن مکمل ہوا تھا تو ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والا پاکستان صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر 281 رنز پر کھڑا تھا۔ کریز پر موجود محمد حفیظ اپنی پہلی ٹیسٹ ڈبل سنچری کی جانب گامزن دکھائی دیتے تھے جبکہ کپتان مصباح الحق کے ساتھ ان کی شراکت داری 121 رنز تک پہنچ چکی تھی۔

لیکن دوسرا دن پاکستان کے لیے بھیانک ترین ثابت ہوا۔ جیسے ہی مصباح ٹم ساؤتھی کی ایک باہر جاتی ہوئی گیند کو چھیڑنے کی پاداش میں وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہوئے، برے وقت کا آغاز ہوگیا اور کھانے کے وقفے سے پہلے پہلے پوری ٹیم صرف 351 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ یعنی کہ 7 وکٹیں محض 66 رنز کے اضافے سے۔

پاکستان کے لیے سب سے مایوس کن لمحہ وہ تھا جب محمد حفیظ 197 رنز بنانے کے بعد ایک غیر ضروری شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے۔ ایش سودھی کی ایک بے ضرر سے گیند پر کھیلا گیا پل سیدھا اسکوائر لیگ پر کھڑے ٹرینٹ بولٹ کے ہاتھوں میں گیا اور یوں محمد حفیظ صرف تین رنز کے فرق سے اپنی پہلی ٹیسٹ ڈبل سنچری نہ بنا سکے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حفیظ ڈبل سنچری کے اتنا قریب پہنچ کر بھی ناکام رہے ہوں۔ 2012ء کے دورۂ سری لنکا میں بھی حفیظ 196 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے تھے۔

مصباح اور حفیظ کے بعد پاکستان کے دیگر کھلاڑیوں کی جلد بازی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور سارے کے سارے مارک کریگ کو وکٹیں دیتے چلے گئے۔ پہلے اسد شفیق 11 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے، پھر سرفراز احمد، محمد طلحہ، راحت علی اور یاسر شاہ نے کریگ کو وکٹیں تھمائیں جو 94 رنز دے کر 7 کھلاڑیوں کی بہترین کارکردگی دکھا کر میدان سے لوٹے۔

لیکن اس ناقابل یقین کارکردگی کے باوجود مجموعی طور پر ماحول سوگوار دکھائی دیا۔ ایک ساتھی کھلاڑی کی کرکٹ میدان میں اندوہناک موت کی وجہ سے دونوں ٹیمیں بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر کھیلیں۔ یہاں تک کہ نیوزی لینڈ کے فیلڈرز نے بھی کسی وکٹ کے گرنے پر خوشی نہیں منائی۔ اس کے باوجود مقابلہ تو پاکستان کی گرفت سے نکل چکا تھا اور اس کو یقینی بنایا نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کولم نے۔ صرف چار سیشن استعمال ہونے والی آسان سی پچ پر انہوں نے پاکستان سے اگلی پچھلی تمام کسریں نکال لیں اور نے صرف 45 اوورز میں محض 1 وکٹ کے نقصان پر 249 رنز بنا کر نیوزی لینڈ کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب پاکستان کو مقابلہ بچانے کے لیے معجزانہ کارکردگی کی ضرورت ہوگی۔

نیوزی لینڈ کو اس بالادست مقام تک پہنچانے میں جہاں اہم کردار مارک کریگ کی باؤلنگ کا ہے، وہیں میک کولم کی شاندار بیٹنگ بھی اس کی ضامن ہے۔ انہوں نے پہلے صرف 78 گیندوں پر نیوزی لینڈ کی تاریخ کی تیز ترین ٹیسٹ سنچری بنائی اور اس کے بعد بھی پاکستان کے باؤلرز پر کوئی رحم نہ کھایا۔ دن مکمل ہوا تو وہ 145 گیندوں پر 153 رنز بنا چکے تھے، جس میں 8 شاندار چھکے اور 17 چوکے شامل رہے۔ جس طرح 'باز' کھیل رہے ہیں، کوئی وجہ نہیں کہ وہ ڈبل سنچری نہ بنائیں۔ بلکہ 2014ء ہی میں وہ ٹرپل سنچری بھی بنا چکے ہیں، جو نیوزی لینڈ کی کرکٹ تاریخ میں کسی بھی بیٹسمین کی پہلی ٹیسٹ ٹرپل سنچری ہے۔ دوسرے کنارے پر کین ولیم سن 76 رنز پر کھڑے ہیں اور کپتان کے ساتھ ان کی شراکت داری 198 رنز تک پہنچ چکی ہے جو کسی بھی وکٹ پر پاکستان کے خلاف نیوزی لینڈ کی طویل ترین شراکت داری ہے۔

اس لیے پاکستان کو مقابلے کی دوڑ میں واپس آنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔ اب تک سوائے راحت علی اور محمد حفیظ کے کوئی پاکستانی باؤلر رنز کا بہاؤ نہیں روک پایا۔ محمد طلحہ کو 7 اوورز میں 62 اور اب تک کامیابیاں سمیٹنے والی ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ کی اسپن جوڑی بھی آج خوب پٹی ہے۔ 'ذلفی" کو 10 اوورڑز میں 71 اور یاسر کو اتنے ہی اوورز میں 59 رنز پڑے ہیں۔ اب انہی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے پاس تیسرے روز مقابلے میں واپس آنے کا آخری موقع ہوگا، اگر باؤلرز نے تیسرے دن کا ابتدائی سیشن لوٹ لیا تو بلے بازوں کو موقع مل سکتا ہے کہ وہ مقابلہ بچالیں ورنہ نیوزی لینڈ نہ صرف سیریز برابر کردے گا بلکہ عالمی درجہ بندی میں بھی پاکستان کے مقام کو سخت ٹھیس پہنچے گی۔