"لوٹ کے بدھو،" پاکستان کو شکست، سیریز برابر ہوگئی

2 1,017

ایک مہینے تک ٹیسٹ کرکٹ میں بالادست کارکردگی دکھانے کے بعد صرف ایک سیشن کی وجہ سے پاکستان اپنی چال ہی بھول گیا اور نتیجے میں نیوزی لینڈ نے ایک اننگز اور 80 رنز کی تاریخی جیت کے ذریعے ٹیسٹ سیریز برابر کردی۔

برینڈن میک کولم اور کین ولیم سن کی 297 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کی ٹیسٹ میں ایک مہینے کی بالادستی کا خاتمہ کردیا (تصویر: Getty Images)
برینڈن میک کولم اور کین ولیم سن کی 297 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کی ٹیسٹ میں ایک مہینے کی بالادستی کا خاتمہ کردیا (تصویر: Getty Images)

1996ء میں لاہور ٹیسٹ میں شکست کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان اپنے گھریلو میدانوں پر نیوزی لینڈ کے ہاتھوں کوئی ٹیسٹ مقابلہ ہارا اور پچھلے چار ٹیسٹ مقابلوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اتنی بری شکست کافی مایوس کن منظر تھا۔

شارجہ میں کھیلے گئے تیسرے و آخری ٹیسٹ کے پہلے روز ٹاس جیتنے کے بعد پاکستان صرف 3 وکٹوں پر 281 رنز بنا چکا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بلے بازوں کی ایک اور غالب کارکردگی دیکھنے کو ملے گی لیکن جیسے ہی آسٹریلیا کے اوپنر فلپ ہیوز کی موت کی خبر ملی اور دونوں ممالک کے بورڈز نے ایک روز کے لیے میچ کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا، مقابلہ پاکستان کی گرفت سے نکل گیا۔ ایک دن کے وقفے کے بعد جب دوسرے دن کا کھیل دوبارہ شروع ہوا تو ایک ہی سیشن میں پاکستان کی اننگز کی بساط لپیٹ دی گئی۔ صرف 66 رنز کے اضافے سے آخری 7 وکٹیں گریں اور پوری ٹیم صرف 351 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔

کہاں ڈبل سنچری کی جانب گامزن محمد حفیظ نیوزی لینڈ کے باؤلرز کے چھکے چھڑا رہے تھے اور کپتان مصباح الحق بھی ایک بڑی اننگز کے لیے پر تول رہے تھے، اور کہاں حفیظ کا 197 رنز پر آؤٹ ہونا اور پھر مجموعے میں معمولی اضافے کے ساتھ باقی تمام بیٹسمینوں کا ہتھیار ڈال دینا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ فلپ ہیوز کے انتقال کا اصل غم پاکستان کے کھلاڑیوں کو ہے۔

حقیقت یہ تھی کہ اتنی شاندار باؤلنگ کارکردگی کے باوجود کوئی جشن نہ منانے والے نیوزی لینڈ کے گیندباز بھی اور بے رحمانہ کارکردگی دکھانے والے بیٹسمین بھی، سب کا یہی کہنا تھا کہ ان کی توجہ اپنی کارکردگی پر نہیں بلکہ فلپ ہیوز پر۔ صدقے جائیں ایسی لاپروائی کے کہ اس کے باوجود انہوں نے ایک مہینے سے فتوحات سمیٹنے والی ٹیم کو ایسا مقابلے سے باہر کیا کہ پھر وہ ایک لمحے کے لیے بھی مقابلے میں واپس نہ آ سکی۔

نیوزی لینڈ، گو کہ ٹاس ہارنے کی وجہ سے مایوس تھا، لیکن چار سیشن میں پاکستانی کی اننگز تمام کرنے کے بعد کپتان برینڈن میک کولم کی ڈبل سنچری، کین ولیم سن کے ساتھ 297 رنز کی شراکت داری اور مڈل اور زیریں آرڈر میں چار نصف سنچریوں کی وجہ سے اپنی تاریخ کے بہترین مجموعے 690 رنز تک پہنچ گیا۔

اس مجموعے کی خاص بات یہ تھی کہ نیوزی لینڈ نے 4.81 رنز فی اوور کے اوسط کے ساتھ یہ رنز صرف 143 اوورز میں بنائے تھے۔ یعنی اتنی بڑی اننگز اور اتنی تیز رفتاری کے ساتھ بنائی کہ پھر نیوزی لینڈ کو دوسری باری کھیلنے کی حاجت ہی نہیں پڑی۔

سب سے شاندار اننگز بلاشبہ کپتان میک کولم کی تھی۔ انہوں نے سال میں اپنی تیسری ڈبل سنچری مکمل کی، جن میں سے ایک نیوزی لینڈ کی کرکٹ تاریخ کی واحد ٹرپل سنچری تھی، جو انہوں نے رواں سال کے اوائل میں بھارت کے خلاف بنائی تھی۔ اس طرح 'باز' ڈان بریڈمین، رکی پونٹنگ اور مائیکل کلارک کے بعد تاریخ کے واحد بلے باز بن گئے جنہیں سال میں تین ڈبل سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کی اننگز کی سب سے خاص بات تیز رفتاری تھی۔ پہلے 78 گیندوں پر نیوزی لینڈ کی تیز ترین ٹیسٹ سنچری کا ریکارڈ بنانے کے بعد وہ صرف 186 گیندوں پر 200 رنز مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ تاریخ کی ان چند ڈبل سنچریوں میں سے ایک تھی جو 200 سے کم گیندوں پر بنائی گئیں۔ اس اننگز میں 11 چھکے اور 21 چوکے شامل تھے۔ البتہ سنگ میل عبور کرتے ہی وہ یاسر شاہ کی گیند پر بولڈ ہوگئے۔

دوسرے اینڈ پر کین ولیم سن اپنے کپتان کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دے رہے تھے لیکن 192 رنز پر پہنچ کر آؤٹ ہوگئے۔ انہوں نے 244 گیندوں کھیلیں اور 399 منٹوں تک پاکستان کے گیندبازوں کو پریشان کیے رکھا۔ ان کی اننگز میں ایک چھکا اور 23 چوکے شامل تھے۔ بعد ازاں کوری اینڈرسن اور روس ٹیلر نے نصف سنچریوں کے ذریعے مجموعے کو 7 وکٹوں پر 546 رنز تک پہنچا دیا۔ پاکستان کو جلد از جلد نیوزی لینڈ کی اننگز ختم کرنے کی ضرورت تھی لیکن باؤلر ایسے نہ کرسکے۔ آخری تین وکٹوں نے بھی 144 رنز جوڑ ڈالے جن میں مارک کریگ کے 65 اور ٹم ساؤتھی کے 50 رنز سب سے نمایاں تھے۔ نیوزی لینڈ 690 رنز بنانے کے بعد آل آؤٹ ہوا اور یوں پاکستان پر 339 رنز کی ایسی برتری حاصل کی۔ اگر پاکستان کی پہلی اننگز کے کارکردگی دیکھیں تو یہ فیصلہ کن برتری تھی اور بعد میں ایسا ثابت بھی ہوا۔

نیوزی لینڈ نے پہلی اننگز میں پاکستان کی آخری 7 وکٹیں 66 رنز پر حاصل کیں اور دوسری اننگز میں صرف 63 رنز پر پاکستان کے ابتدائی 5 کھلاڑی ٹھکانے لگائے (تصویر: AFP)
نیوزی لینڈ نے پہلی اننگز میں پاکستان کی آخری 7 وکٹیں 66 رنز پر حاصل کیں اور دوسری اننگز میں صرف 63 رنز پر پاکستان کے ابتدائی 5 کھلاڑی ٹھکانے لگائے (تصویر: AFP)

صرف 63 رنز پر پاکستان اپنی آدھی ٹیم سے محروم ہوچکا تھا۔ شان مسعود 4، اظہر علی 6 اور یونس خان صفر پر ٹرینٹ بولٹ کا نشانہ بنے اور چوتھے روز کھانے کے وقفے کے بعد محمد حفیظ اور مصباح الحق کی باری آئی جو بالترتیب 24 اور 12 رنز بنانے کے بعد چل دیے۔

پاکستان کی جانب سے واحد مزاحمت اسد شفیق نے کی جنہوں نے 148 گیندوں پر 137 رنز کی بہترین اننگز کھیلی لیکن دوسرے کنارے سے انہیں کسی بلے باز کا ساتھ میسر نہ آ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 37 رنز بنانے والے سرفراز احمد کے بعد پاکستان کی اننگز کسی بھی لمحے ختم ہو سکتی تھی۔ پھر بھی آخری پانچ بلے بازوں نے 196 رنز کا اضافہ کیا۔ اگر کچھ ایسی ہی کارکردگی بالائی بیٹسمین بھی دکھاتے تو شاید پاکستان آخری روز مقابلہ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوجاتا۔

بہرحال، مارک کریگ شاندار آل راؤنڈ کارکردگی، میچ میں 10 وکٹوں اور واحد اننگز میں نصف سنچری، کی بدولت میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جبکہ سیریز میں 139.33 کے اوسط کے ساتھ 418 رنز بنانے والے محمد حفیظ سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

عالمی نمبر دو آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد پاکستان درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر آ گیا تھا لیکن عالمی نمبر 7 نیوزی کو زیر کرنے میں ناکامی کے بعد اب چوتھے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

اب دونوں ٹیمیں دو ٹی ٹوئنٹی اور 5 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں آمنے سامنے ہوں گی جو فروری میں عالمی کپ کے پیش نظر بہت اہمیت کی حامل سیریز ہوگی۔