عالمی کپ کے لیے بھارتی اور پاکستانی دستے، فرق صاف ظاہر ہے!

1 1,047

پاکستان سے دو روز پہلے بھارت نے بھی عالمی کپ کے لیے اپنے 30 رکنی ابتدائی دستے کا اعلان کیا تھا، جس میں صرف چار کھلاڑی ایسے تھے جو عالمی کپ کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہوں۔ 28 سال بعد 2011ء میں بھارت کو عالمی چیمپئن بنانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے یووراج سنگھ، وریندر سہواگ، گوتم گمبھیر، ہربھجن سنگھ اور ظہیر خان 30 کھلاڑیوں میں بھی جگہ نہیں پا سکے ، حالانکہ یہ سب کھلاڑی اب بھی پیشہ ورانہ کرکٹ کھیل رہے ہیں اور لیگ اور ڈومیسٹک کرکٹ میں بھرپور کارکردگی دکھا رہے ہیں۔

عالمی کپ کے لیے اعلان کردہ دستے میں بھارت کے صرف چار کھلاڑی پہلے ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں، جبکہ پاکستان کے ایسے کھلاڑیوں کی تعداد 12 ہے (تصویر: Getty Images)
عالمی کپ کے لیے اعلان کردہ دستے میں بھارت کے صرف چار کھلاڑی پہلے ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں، جبکہ پاکستان کے ایسے کھلاڑیوں کی تعداد 12 ہے (تصویر: Getty Images)

اس اقدام سے مستقبل کے لیے بھارتی کرکٹ بورڈ کی حقیقی ترجیحات ظاہر ہوتی ہیں، لیکن ساتھ ساتھ گزشتہ چند سالوں کی شاندار فتوحات کا راز بھی افشا ہوگیا ہے، یعنی نوجوان کھلاڑیوں پر اظہار اعتماد۔ بھارت نے ان چار سالوں میں ملکی کرکٹ کے ڈھنگ کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، جس کی بدولت انہی نوجوان کھلاڑیوں نے بھارت کو عالمی درجہ بندی میں متعدد بار سرفہرست مقام تک پہنچایا اور اب یہ بات طے شدہ ہے کہ فروری و مارچ میں عالمی کپ کھیلنے والے بھارت کے حتمی 15 رکنی دستے میں کم از کم 11 کھلاڑی ایسے ہوں گے، جنہوں نے کبھی عالمی کپ نہیں کھیلا۔

30 میں سے صرف مہندر سنگھ دھونی ہی واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کھیلے ہیں جبکہ تین کھلاڑیوں یعنی ویراٹ کوہلی، روی چندر آشون اور سریش رینا کا تجربہ بھی محض ایک عالمی کپ تک محدود ہے۔ اس کے باوجود دلچسپ بات یہ ہے کہ بقیہ 26 کھلاڑیوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو بین الاقوامی سطح پر بھارت کی نمائندگی نہ کرچکا ہو، سب کسی نہ کسی حد تک بین الاقوامی کرکٹ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ بھارتی کرکٹ کے کرتا دھرتا افراد نوجوانوں پر اعتماد کرتے ہیں، انہیں مستقل مواقع دیتے ہیں اور اب ان کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔

پھر ان نوجوانوں کی اپنی کارکردگی بھی دیکھیں۔ عالمی کپ 2011ء کے بعد سے اب تک بھارت نے متعدد مواقع پر اپنے سینئر کھلاڑیوں کی جگہ ان نوجوانوں کے مواقع دیے ہیں جنہوں نے 95 ایک روزہ مقابلوں میں 57 فتوحات حاصل کیں اور دونوں ورلڈ کپ کے درمیان ہونے والا سب سے بڑا ایک روزہ ٹورنامنٹ چیمپئنز ٹرافی بھی جیت کر دکھایا۔ اس لیے بھارت اب بھی عالمی کپ میں اپنے اعزاز کے دفاع کے لیے ایک مضبوط امیدوار دکھائی دیتا ہے۔

اب ذرا ایک نظر وطن عزیز پر بھی ڈال لیں۔ پاکستان نے ہفتے کے روز آئندہ عالمی کپ کے لیے اپنے 30 رکنی ابتدائی دستے کا اعلان کیا ہے جن میں 12 کھلاڑی ایسے ہیں جو کم از کم ایک مرتبہ ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں اور یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حتمی 15 رکنی دستے میں 10 کھلاڑی تو ضرور ایسے ہوں گے، جو عالمی کپ کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہوں۔ تجربہ ہرگز بری چیز نہیں، لیکن جدید کرکٹ بہت حد تک بدل چکی ہے اور ان حالات میں 40 سال کے کھلاڑیوں کے ساتھ عالمی کپ کھیلنا سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتا ہے۔ پھر تجربہ بھی دیکھیں، شاہد آفریدی 1999ء کا عالمی کپ کھیل چکے ہیں، جبکہ یونس خان 2003ء اور محمد حفیظ، شعیب ملک، عمر گل اور کامران اکمل 2007ء کی ناکام مہمات میں بھی شامل رہے ہیں۔

پھر گزشتہ عالمی کپ میں سیمی فائنل میں روایتی حریف کے ہاتھوں شکست کے بعد سے اب تک پاکستان کی کارکردگی بھی کچھ ایسی شاندار بھی نہیں رہی کہ چار سالوں تک مسلسل پرفارم کرنے کے بعد ان پر اعتماد کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ ہو۔ اس عرصے میں 81 مقابلوں میں صرف 42 فتوحات اور 2012ء میں ایشیا کپ، پھر دورۂ بھارت اور جنوبی افریقہ میں سیریز جیتنے کے علاوہ اس دستے کے دامن میں کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے بلکہ چیمپئنز ٹرافی 2013ء کے تمام مقابلوں میں شکست کے ساتھ گروپ مرحلے سے اخراج اور حال ہی میں آسٹریلیا کے ہاتھوں کلین سویپ شکست کے داغ ضرور ہیں۔

اس ابتدائی دستے کے اعلان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کو چلانے کے طور طریقے سرے سے غلط ہیں۔ گزشتہ عالمی کپ کے بعد بڑی تعداد میں نوجوانوں کو آزمانے کا سنہری موقع پاکستان کے ہاتھ میں تھا لیکن اس کے بجائے نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور پٹے ہوئے مہروں ہی پر اعتماد ظاہر کیا گیا۔ نتیجہ اب سب کے سامنے ہے کہ پاکستان عالمی درجہ بندی میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کرکٹ بورڈ نے جب بھی نئے کھلاڑیوں پر اعتماد کیا، انہوں نے خود کو ثابت کر دکھایا۔ حال ہی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ جہاں کمزور ترین بیٹنگ اور باؤلنگ کے باوجود ان دونوں ٹیموں کو پانچ مقابلوں میں تین بار شکست سے دوچار کیا بلکہ آسٹریلیا کے خلاف تاریخی کلین سویپ فتح حاصل کی۔

عالمی کپ کے لیے پاکستان کے ابتدائی دستے میں چند کھلاڑی ایسے بھی ہیں جنہیں شاذونادر ہی ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کا موقع دیا گیا ہے۔ سمیع اسلم، حارث سہیل، رضا حسن، احسان عادل اور محمد طلحہ میں سے سب سے زیادہ "تجربہ کار" حارث ہیں، جن کے ایک روزہ مقابلوں کی تعداد صرف 4 ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کھلاڑیوں کو مختلف سیریز میں ایک، دو میچز میں کھلایا جاتا لیکن یہ پاکستان کرکٹ کا طریقہ ہی نہیں، اسے تو مکمل طور پر ڈھانے کے بعد نئے سرے سے تعمیر کا "ہنر" آتا ہے۔

درحقیقت یہ پاکستانی بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کا نئے کھلاڑیوں پر اظہار عدم اعتماد ہی ہے کہ ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کے سنبھلنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ بورڈ کے اقدامات اور منصوبہ بندیاں محدود اوورز کے اس اہم کھیل کو جمود کا شکار بنا رہے ہیں اور اگر آئندہ عالمی کپ میں پاکستان کو ابتدائی مراحل ہی میں شکست ہوگئی، جو ہرگز غیر یقینی نہیں ہے، تو صرف ایک یا دو نہیں بلکہ کم از کم سات، آٹھ کھلاڑیوں کے بین الاقوامی کیریئرز کا خاتمہ ہوگا پھر بادل نخواستہ انہی نئے کھلاڑیوں پر تکیہ کرنا پڑے گا تو کیوں نا ان کھلاڑیوں کو پہلے ہی وقتاً فوقتاً مواقع دیے گئے تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں یہ نوبت ہی نہ آئے۔

بہرحال، پاکستان اور بھارت کی عالمی کپ تیاریوں کا یہ تقابل ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ملکوں میں کرکٹ معاملات کن خطوط پر چل رہے ہیں۔ بھارت بدعنوانی اور فکسنگ کے بدترین اسکینڈل میں گھرنے کے باوجود کرکٹ کے حوالے سے غفلت کا کوئی مظاہرہ نہیں کررہا، جبکہ پاکستان کے انتظامی مسائل تو ایک طرف کرکٹ کے معاملات چلانے والے بھی کھیل کی سرے سے سمجھ بوجھ ہی نہیں رکھتے۔

15 فروری کو ایڈیلیڈ میں ہونے والے اہم پاک-بھارت عالمی کپ مقابلے کا نتیجہ جو بھی نکلے، لیکن پاکستان کو اب سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک میں کرکٹ کا مستقبل سنوارنا اور اس کھیل کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہے یا قومی کھیل ہاکی کی طرح کا انجام دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے۔