بھارت کا دورۂ آسٹریلیا، جارحانہ حکمت عملی اختیارکرنے کی ضرورت

1 1,004

فلپ ہیوز کی ناگہانی موت کے بعد بھارت -آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کا باضابطہ آغاز9دسمبر سے ہونے والا ہے۔جواں سال آسٹریلوی بلے باز کے دردناک حادثے نے پوری دنیا کو مغموم کر دیا تھا اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ غم و الم کی یہ اندوہناک گھٹا ایک طویل عرصہ تک کرکٹ دنیا پر چھائی رہے گی۔لیکن زندگی و موت کا یہ سلسلہ فطرت کا نظام ہے،موت کی تلخ حقیقت کو قبول کرتے ہوئے کائنات کا نظام چلتا رہتا ہے۔

مہندر سنگھ دھونی کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ جارحانہ انداز میں قیادت کے ذریعے اپنے ناقدین کو بھرپور جواب دیں (تصویر: AFP)
مہندر سنگھ دھونی کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ جارحانہ انداز میں قیادت کے ذریعے اپنے ناقدین کو بھرپور جواب دیں (تصویر: AFP)

آسٹریلوی ٹیم اس عظیم صدمے کے بعد ایک مرتبہ پھربین الاقوامی میدان میں اترنے کے لیے تیار ہے۔ بھارتی ٹیم بھی آسٹریلیا پہنچنے کے بعد عجیب و غریب حالات کا سامنا کررہی تھی لیکن پہلے ٹیسٹ کے آغاز کے ساتھ اب حالات بھی معمول پر آ جائیں گے۔

4 ٹیسٹ اور ایک سہ فریقی سیریز پر مشتمل بھارت کا دورۂ آسٹریلیا عالمی کپ2015ء سے قبل ٹیم انڈیا کی آخری مہمات ہیں۔ بھارت کے کھلاڑی عالمی کپ تک آسٹریلیا میں ہی موجود رہیں گے اس لیے عالمی اعزاز کے دفاع کے تناظر میں جہاں ایک طرف یہ دورہ بھارت کے لیے اہمیت رکھتا ہے، وہیں ایک سخت آزمائش بھی ہے کیونکہ کامیابی کی صورت میں ورلڈ کپ کا آغاز جوش و ولولے کے ساتھ کرے گا لیکن ناکامی عالمی کپ میں منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

اس صورتحال سے بچنے کے لیے بھارت کو 2011-12ء کی ہزیمت کو بھول کو ٹیسٹ سیریز کا آغاز جارحانہ انداز میں کرنا ہوگا۔ غیر ملکی دوروں میں عام طور پر ٹیم انڈیا کی منصوبہ بندی دفاعی ہوجاتی ہے۔ اس کی زيادہ توجہ مقابلے جیتنے پر نہیں بلکہ شکست سے بچنے پر ہوتی ہے۔ ایڈیلیڈ کرکٹ گراؤنڈ، جہاں بھارت اور آسٹریلیا کے مابین پہلا ٹیسٹ کھیلا جانا ہے، وہاں ماضی میں بھارت کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ اب یہ کپتان اور سلیکٹرز پر منحصر ہے کہ وہ پہلے ٹیسٹ کے لیے جارحانہ ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں یا ایک ’’ دفاعی دستہ‘‘ تیار کر کے میدان میں اتارتے ہیں۔

فرسٹ کلاس میں عمدہ کارکردگی کی بدولت لوکیش راہول دورۂ آسٹریلیا کا حصہ ہیں۔ اگر پہلے ٹیسٹ کے حتمی دستے میں ان کا نام آتا ہے، تو یقینی طور پر وہ سلامی بلے باز کی حیثیت ہی سے شامل ہوں گے، جس سے شیکھر دھاون کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ راہول جارح مزاج بلے باز ہیں، جو کرناٹک کے لیے کھیلتے ہیں۔ وہ آئی پی ایل میں رائل چیلنجرز بنگلور اور سن رائزرز حیدرآباد کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔

اسپنر کی حیثیت سے بھارتی اسکواڈ میں ابھی تین نام ہیں: روی چندر آشون، رویندر جدیجا اور کرن شرما۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان اور سلیکٹرز ایک کل وقتی اسپنر کا انتخاب کرتے ہیں یا اس کا جو بلے باز کی حیثیت سے بھی اپنا کردار ادا کرسکے۔

بہرحال، کھلاڑیوں کا انتخاب کیسا بھی ہو، کرکٹ نفسیات کا کھیل ہے، جس میں ایک اہم حصہ کپتان اور اس کی منصوبہ بندیوں کا بھی ہوتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں مہندر سنگھ دھونی کے دفاعی انداز پر کئی بار اعتراض ہوچکا ہے اور ان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ حریف کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے کئی بار بھارت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انگلستان کی سرزمین پر متواتر شکستوں کا اہم سبب دھونی کی دفاعی منصوبہ بندی ہی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دھونی آئندہ سیریز میں اپنے ناقدین کو کس طرح جواب دیتے ہیں۔