ولیم سن کی قائدانہ اننگز نے سیریز برابر کردی

0 1,021

ہدف کا تعاقب کرنے میں گھبراہٹ، پہلے بلے بازی کے ناقص فیصلے، اہم بلے بازوں کی غیر ذمہ داری اور پھر نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیم سن کی شاندار قائدانہ اننگز پاکستان کی 4 وکٹوں سے شکست کے اہم ترین اسباب رہے۔ یوں پاک-نیوزی لینڈ ون ڈے سیریز ایک-ایک سے برابر ہوچکی ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے تیز گیندبازوں کی اہلیت پر سوال اٹھا گئی ہے جو 253 رنز کے بڑے مجموعے کا بھی دفاع نہ کرسکے اور بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔

نیوزی لینڈ نے پہلی ہی وکٹ پر سنچری شراکت داری کے ذریعے مقابلے پر ایسی گرفت مضبوط کی کہ پاکستان کی سر توڑ کوشش بھی اسے جبیتنے سے نہ روک سکی (تصویر: AFP)
نیوزی لینڈ نے پہلی ہی وکٹ پر سنچری شراکت داری کے ذریعے مقابلے پر ایسی گرفت مضبوط کی کہ پاکستان کی سر توڑ کوشش بھی اسے جبیتنے سے نہ روک سکی (تصویر: AFP)

شارجہ کے میدان پر، جہاں پاکستان نے تاریخ میں کبھی نیوزی لینڈ کے خلاف کسی ایک روزہ مقابلے میں شکست نہیں کھائی تھی، پاکستان نے ٹاس جیتا اور شام میں اوس پڑنے کے خطرے کے باوجود خود بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے ہدف کے تعاقب میں گھبراہٹ کا عنصر تھا یا اپنے بلے بازوں پر ضرورت سے خود اعتمادی، لیکن کچھ ہی دیر میں پاکستان کے اس فیصلے کے بد اثرات سامنے آ گئے۔ پہلے ہی اوور میں احمد شہزاد وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے اور پھر یونس خان کو ایل بی ڈبلیو کے ایک قریبی معاملے سے بچنے کے باوجود سلپ میں کیچ دے کر چلتے بنے۔ اس بھیانک آغاز میں جو کسر باقی رہ گئی تھی، وہ اسد شفیق کے کلین بولڈ سے پوری ہوگئی۔ پاکستان پانچویں اوور میں صرف 20 رنز پر اپنے تین اہم ترین بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔

اس مرحلے پر محمد حفیظ اور حارث سہیل نے ذمہ دارانہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور چوتھی وکٹ پر 77 رنز جوڑ کر پاکستان کی اننگز کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔ گزشتہ مقابلے کے مرد میدان حارث کو نیوزی لینڈ کے تیز باؤلرز کی جانب سے ابتداء میں سخت امتحان سے گزرنا پڑا، جنہوں نے بارہا شارٹ گیندیں پھینک کر بائیں ہاتھ کے بلے باز کو پریشان کیا۔ لیکن پھر حارث ان پر حاوی ہوگئے۔ 45 گیندوں پر ایک چھکے اور دو چوکوں کی مدد سے 33 رنز تک پہنچے تھے کہ ایک غلط شاٹ نے ان کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔

اب اننگز کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری دو تجربہ کار اراکین محمد حفیظ اور کپتان مصباح الحق پر تھی جنہوں نے 66 رنز جوڑے اور پاکستان کو بیٹنگ پاور پلے تک پہنچا دیا۔ یہاں اگر پاکستان میٹ ہنری کے ہاتھوں پے در پے دونوں بلے بازوں کی وکٹیں نہ گنواتا تو شاید اس کی اننگز 252 رنز تک محدود نہ رہتی۔ لیکن پہلے حفیظ 76 رنز کی باری کھیلنے کے بعد ایک بڑا شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے۔ ہنری کی اٹھتی ہوئی گیند پر ایک خوبصورت پل کھیلا لیکن گیند ڈیپ مڈ وکٹ پر کھڑے ٹام لیتھم سے آگے نہ جا سکی اور سیدھا ان کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ حفیظ نے 92 گیندیں کھیلیں اور ایک چھکے اور 9 چوکوں کی مدد سے 76 رنز بنا کر میدان سے واپس آئے۔ ہنری نے اگلے ہی اوور میں پاکستان کو ایک اور ضرب لگائی جب مصباح امپائر رچرڈ النگورتھ کے ایک فیصلے، اور پھر ریویو لینے کے باوجود تیسرے امپائر کی جانب سے ان کی تائید، کا نشانہ بن گئے۔ باؤنسر پر مصباح ہک کرنے کے لیے گئے تھے لیکن ناکام رہے لیکن صرف وکٹ کیپر کی اپیل پر امپائر نے انہیں آؤٹ قرار دیا۔ مصباح نے فیصلے کے خلاف اپیل کی لیکن تیسرے امپائر نے کوئی واضح ثبوت نہ ملنے پر فیلڈ امپائر ہی سے اتفاق کیا اور مصباح مایوسی کے ساتھ میدان سے واپس لوٹ آئے۔ ان کی اننگز 47 رنز پر مشتمل رہی، جس میں دو چھکے اور دو ہی چوکے شامل تھے۔

شاہد آفریدی گزشتہ مقابلے میں ذمہ داری سے کھیل چکے تھے، لیکن آج جب پاکستان کو ان کی شدید ضرورت تھی، ایک مرتبہ پھر جارح مزاجی کے سبب 27 رنز سے آگے نہ بڑھ سکے۔ پاکستان 40 اوورز میں 197 رنز بنا چکا تھا اور اس کی صرف 4 وکٹیں باقی تھیں۔ اس وقت شاہد نے 41 ویں اوور کا آغاز ایڈم ملنے کو دو شاندار چھکوں کے ذریعے کیا۔ لیکن تیسری گیند پر ایک مرتبہ پھر، اور انتہائی غیر ضروری، کوشش کی اور اس مرتبہ ڈینیل ویٹوری نے کوئی غلطی نہیں کی اور مڈ آف پر کیچ لے کر شاہد کی مختصر اننگز کا خاتمہ کردیا۔ انہوں نے 14 گیندوں پر 31 رنز بنائے، جس میں 3 چھکے اور ایک چوکا شامل تھا۔ اب سرفراز احمد ہی رہ گئے تھے جو اننگز کو 49 ویں اوور تک لے گئے اور جہاں ان کے آؤٹ ہوتے ہی سہیل تنویر بھی ایک چوکا لگا کر پویلین سدھار گئے اور پاکستان کی اننگز 49 ویں اوور میں 252 رنز پر مکمل ہوگئی۔

بھیانک ابتداء کےبعد اس مجموعے تک پہنچنا پاکستان کے لیے حوصلہ افزاء تھا۔ محمد حفیظ کی نصف سنچری اور دیگر بلے بازوں کے عمدہ ساتھ نے باؤلرز کے لیے موقع فراہم کیا کہ اب وہ اپنے حصے کا کام کریں اور سیریز میں پاکستان کی برتری کو دوگنا کردیں۔ لیکن سوائے حارث سہیل کے، کوئی پاکستانی گیندباز اپنی کارکردگی سے متاثر نہیں کرسکا۔ نیوزی لینڈ نے ابتدائی 18 اوورز ہی میں مقابلے پر ایسی گرفت حاصل کرلی کہ پھر سر توڑ کوشش بھی اسے میچ میں واپس نہ لاسکی۔

نیوزی لینڈ کے افتتاحی بلے بازوں انتون ڈیوکچ اور ڈین براؤنلی نے 103 رنز کی بہترین شراکت داری قائم کی۔ سہیل تنویر، وہاب ریاض اور محمد عرفان پر مشتمل پاکستان کی مثلث ان دونوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ جنہوں نے عمدہ رن اوسط کے ساتھ پاکستان کے ہر حربے کو ناکام بنایا۔ پاکستان کو ہدف کے دفاع میں پہلا دھچکا تو اس وقت لگا جب تیسرے ہی اوور میں کپتان مصباح الحق ران کا پٹھا کھنچ جانے کی وجہ سے میدان سے باہر چلے گئے۔ اس کے بعد بقیہ پوری اننگز میں قیادت کے فرائض شاہد آفریدی نے انجام دیے، جنہوں نے کہیں جا کر 19 ویں اوور میں پاکستان کو پہلی وکٹ دلائی۔ براؤنلی 47 رنز بنانے کے بعد "لالا" کی گیند پر کلین بولڈ ہوئے۔ اس کے کچھ دیر بعد حارث سہیل مقابلے پر چھا گئے۔ انہوں نے پہلے انتون ڈیوکچ کو رن آؤٹ کیا اور پھر روس ٹیلر، ٹام لیتھم اور کوری اینڈرسن کی وکٹیں حاصل کرکے مقابلے کو برابری کی سطح پر کھڑا کردیا۔ نیوزی لینڈ جیت سے 86 رنز کے فاصلے پر تھا اور پاکستان دو وکٹیں سمیٹ کر کم از کم ایک اینڈ کو ضرور غیر محفوظ بنا سکتا تھا۔ لیکن کپتان کین ولیم سن نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ ان کی 70 رنز کی ناقابل شکست اننگز نے پاکستان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا جبکہ اس مقصد میں ان کا بھرپور ساتھ وکٹ کیپر لیوک رونکی نے دیا۔ دونوں نے چھٹی وکٹ پر 58 رنز کا اضافہ کیا اور پاکستان کی رہی سہی امیدوں کا بھی خاتمہ کردیا۔ پاکستان رونکی کی وکٹ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوا، جو 32 گیندوں پر 36 رنز بنانے کے بعد شاہد آفریدی کا دوسرا و آخری شکار بنے لیکن نیوزی لینڈ کو باقی 28 رنز بنانے سے روکنا ممکن نہیں تھا، خاص طور پر ولیم سن کے ہوتے ہوئے۔ بلیک کیپس نے 46 اوورز میں ہی ہدف کو حاصل کرلیا اور یوں سیریز کو برابری کی سطح پر لاکھڑا کردیا۔

کین ولیم سن کو شاندار کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ ان کی فارم کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ گزشتہ 7 ایک روزہ مقابلوں میں ان کی چھٹی نصف سنچری تھی اور اس فارم کے ساتھ کھیلنے والے بلے باز کو جیت سے روکنا پاکستان کے لیے ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا۔

پاکستان کی شکست کی ایک وجہ تیز گیندبازوں کی مایوس کن کارکردگی تھی۔ نیوزی لینڈ کو میچ میں بالادست مقام تک پہنچانے میں میٹ ہنری، میک کلیناگھن اور ایڈم ملنے کی تباہ کن باؤلنگ نے اہم کردار ادا کیا، جنہوں نے کل 9 وکٹیں سمیٹیں، جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کے تیز باؤلرز سہیل تنویر، محمد عرفان اور وہاب ریاض کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے بلکہ اپنے 25 اوورز میں 138 رنز بھی کھائے۔ خاص طور پر وہاب ریاض نے بہت مایوس کیا۔ ان کے 9 اوورز میں نیوزی لینڈ کے بلے باز 58 رنز لوٹنے میں کامیاب رہے، جن میں 9 مرتبہ گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔

البتہ شکست کی ایک اور اہم وجہ دوسری اننگز میں اوس پڑنے کی وجہ سے پاکستان کے باؤلرز کا گیند پر مکمل گرفت حاصل نہ کر پانا تھا۔ اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے کہ کچھ اور کہ جب بھی شام میں اوس پڑنے کے خوف سے ہدف کا تعاقب کیا، تب نیوزی لینڈ کے باؤلرز کے بھاگ جاگے اور ایک مرتبہ بھی اوس نہ پڑی، لیکن جیسے ہی پاکستان نے خطرے کے باوجود بعد میں باؤلنگ سنبھالی، اسی روز گیند پر گرفت پانا مشکل ہوگیا۔

بہرحال، اب سیریز کا تیسرا اور اہم مقابلہ شارجہ ہی کے میدان پر اتوار کو کھیلا جائے گا، جہاں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر برتری حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ اگر مصباح الحق کی انجری شدید نوعیت کی ہوئی تو یہ پاکستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے، جو کمزور بیٹنگ لائن اپ کی وجہ سے ویسے ہی پریشانی سے دوچار ہے۔