عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: جب پاکستان نے کالی آندھی کا زور توڑا

2 1,072

عالمی کپ کی 40 سالہ تاریخ میں پاکستان کبھی بھارت کو زیر نہیں کرسکا۔ 1992ء کے عالمی کپ میں روایتی حریف پہلی بار مدمقابل آئے اور اس کے بعد سے آج تک ہر بار شکست پاکستان کے نصیب میں لکھی گئی۔ اب اگلے ماہ عالمی کپ 2015ء میں یہ روایت برقرار رہے گی یا پاکستان اسے توڑنے میں کامیاب ہوجائے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن پاکستان ماضی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار رہ چکا ہے۔

عبدالقادر نے گیندبازی کے بجائے بلے بازی سے پاکستان کی تاریخ کی یادگار فتوحات میں سے ایک دلائی (تصویر: Getty Images)
عبدالقادر نے گیندبازی کے بجائے بلے بازی سے پاکستان کی تاریخ کی یادگار فتوحات میں سے ایک دلائی (تصویر: Getty Images)

پہلے عالمی کپ میں ایک وکٹ سے ہارنے کے بعد پاکستان 1979ء میں پہلی بار سیمی فائنل تک پہنچا تو غرب الہند کے یہی کھلاڑی اس کا راستہ روکے کھڑے تھے۔ 1983ء میں پاکستان مسلسل دوسری بار "فائنل 4" تک پہنچا تو بھی یہی ویسٹ انڈیز مدمقابل تھا جو پاکستان کو روندتا ہوا مسلسل تیسری بار فائنل تک پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ 1987ء میں عالمی کپ پہلی بار انگلستان سے باہر منعقد ہوا۔ پاکستان اور بھارت اس عالمی کپ کے مشترکہ میزبان تھے اور بلاشبہ مضبوط ترین امیدوار بھی۔ پاکستان اس زمانے میں دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتا تھا جسے عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، عبد القادر اور سلیم ملک جیسے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ ابتدائی مقابلوں میں سری لنکا اور پھر انگلستان کو زیر کرتے ہوئے پاکستان لاہور میں ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈیز کے مقابل آیا، یعنی ایسی ٹیم کے خلاف جسے وہ آج تک عالمی کپ میں شکست نہیں دے سکا تھا اور پھر دنیا نے وہ کانٹے دار مقابلہ ملاحظہ کیا، جو آج بھی ان افراد کے ذہنوں میں تازہ ہے جنہوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

زندہ دلانِ لاہور کی بڑی تعداد قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان کو تاریخ رقم کرتا دیکھنے کے لیے موجود تھی۔ 50 ہزار سے زیادہ افراد اس وقت دم بخود تھے جب ویسٹ انڈیز نے پہلی ہی وکٹ پر 91 رنز بنا ڈالے۔ سکوت کے اس عالم میں پاکستان کے گیندبازوں نے مقابلے میں واپسی کی سلیم جعفر اور توصیف احمد نے صرف 30 رنز کے اضافے سے ویسٹ انڈیز کی 4 وکٹیں گرا کر تماشائیوں میں جوش و خروش پیدا کردیا۔ صرف کپتان ویوین رچرڈز ہی 51 رنز کے ساتھ پاکستان کے تابڑ توڑ حملوں کو روک سکے لیکن ویسٹ انڈیز 216 سے زیادہ رنز نہ بنا سکا۔ عمران خان نے چار، سلیم جعفر نے تین اور وسیم اکرم نے دو وکٹیں حاصل کیں۔

اب پاکستان مقابلے کی دوڑ میں حاوی تھا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف شکستوں کی روایت توڑنے کے لیے اس کے سامنے صرف 217 رنز ہدف تھا اور انعام کے طور پر سیمی فائنل کی نشست کی ضمانت بھی۔

ہدف کے تعاقب میں ایک مرحلے پر پاکستان کے 92 رنز پر صرف دو کھلاڑی آؤٹ تھے لیکن ابھی نصف منزل بھی طے نہیں ہوئی تھی کہ آدھے بلے باز میدان سے واپس آ چکے تھے۔ جاوید میانداد کی قیمتی وکٹ 110 رنز پر گری تو پاکستان کے امکانات معدوم ہوگئے کیونکہ اب اسے صرف 15 اوورز میں 107 رنز کی ضرورت تھی اور کوئی مستند بلے باز کریز پر موجود نہیں تھا، بس امید کی آخری کرن عمران خان اور وکٹ کیپر سلیم یوسف کی صورت میں قائم تھی۔

عمران اور سلیم یوسف نے صرف 11 اوورز میں 73 رنز کا اضافہ کرکے پاکستان کو اس مقام تک پہنچا دیا جہاں سے وہ مقابلہ اپنے نام کرسکتا تھا۔ اس مقام پر کورٹنی واش نے ان دونوں بلے بازوں کو ٹھکانے لگایا اور دوسرے کنارے سے پیٹرک پیٹرسن نے وسیم اکرم کی وکٹ حاصل کرکے پاکستان پر کاری ضرب لگائی۔ رہی سہی کسر توصیف احمد کے رن آؤٹ نے پوری کردی اور یوں پاکستان ایک بالادست مقام سے یہاں تک پہنچ گیا کہ اسے آخری اوور میں 14 رنز کی ضرورت تھی اور صرف ایک وکٹ باقی تھی۔

تاریخ کا دھارا پلٹنے کی بھاری ذمہ داری عبد القادر اور سلیم جعفر کے کاندھوں پر تھی جنہوں نے کورٹنی واش کے آخری اوور کی پہلی تین گیندوں پر چار رنز بنائے۔ جب آخری تین گیندوں پر 10 رنز کی ضرورت تھی تو عبد القادر کے چھکے نے ہزاروں تماشائیوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ پاکستان نے آخری دو گیندوں پر درکار چار رنز بنا لیے اور یوں صرف ایک وکٹ سے ویسٹ انڈیز کو شکست دے دی۔ پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی بار سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا۔

عبد القادر کے تاریخی چھکے کے ساتھ ساتھ یہ مقابلہ کورٹنی واش کی ایمانداری کی وجہ سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔آخری گیند پر جب پاکستان کودو رنز کی ضرورت تھی تو واش گیند پھینکنے کے لیے آئے اور اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ گھماتے ان کے کنارے پر موجود بلے باز سلیم جعفر کریز سے نکل گئے۔ جس پر واش نے انہیں رن آؤٹ کرنے کے بجائے صرف تنبیہ سے کام چلایا، حالانکہ رن آؤٹ کرکے ویسٹ انڈیز کو جتوا بھی سکتے تھے لیکن یہ صریح بداخلاقی شمار ہوتی۔

بہرحال، پاکستان کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سلیم یوسف مرد میدان قرار پائے جنہوں نے صرف 49 گیندوں پر 56 رنز بنائے۔

پاکستان نے لاہور کے اسی میدان پر سیمی فائنل میں آسٹریلیا کا سامنا کیا، اس میں کیا ہوا؟ وہ ہم آپ کو "عالمی کپ کے جادوئی لمحات" کی اگلی قسط میں کل بتائیں گے۔ تب تک آپ اس یادگار مقابلے کی جھلکیاں دیکھیں۔ ویسے اس وڈیو کے بالکل آخر میں ایک یادگار منظر بھی موجود ہے، ذرا بتائیے گا کیا؟ 🙂