‎عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: جونٹی رہوڈز کی "پرواز"

2 1,041

1992ء کا عالمی کپ کئی لحاظ سے یادگار تھا۔ صرف اس لیے نہیں کہ پاکستان نے جیتا، بلکہ اس لیے کہ یہ ہر لحاظ سے ایک جدید ٹورنامنٹ تھا۔ عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی بار رنگین ملبوسات، سفید گیندوں، فیلڈنگ پابندیوں اور برقی قمقموں کا استعمال کیا گیا اور پھر ساخت بھی ایسی کہ ہر ٹیم کو دوسری کے خلاف ایک مقابلہ کھیلنا ضروری تھا۔ یعنی 1992ء کے عالمی کپ میں تمام ٹیموں کی صلاحیتوں کا سخت ترین امتحان ہوا اور جو اس میں پورا اترا وہ عالمی چیمپئن بنا۔

اس عالمی کپ میں ہونے والے کئی اضافوں میں سےایک جنوبی افریقہ کا بھی تھا۔ نسل پرست حکومت کی وجہ سے تقریباً 22 سال تک پابندی عائد رہنے کے بعد جنوبی افریقہ نے نومبر 1991ء میں بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی اور چند ہی ماہ بعد عالمی کپ کھیلنے کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہنچا۔ عالمی کپ میں اپنے ابتدائی چار مقابلوں میں دو فتوحات اور دو شکستوں کے بعد جنوبی افریقہ کے لیے پاکستان کے خلاف جیتنا ضروری تھا جبکہ پاکستان بھی انگلستان کے خلاف گزشتہ مقابلے میں 72 رنز پر آؤٹ ہوجانے کے باوجود بارش کی وجہ سےایک قیمتی پوائنٹ ملنے کے بعد جیت کے لیے سرگرداں تھا۔ اس صورتحال میں 8 مارچ 1992ء کو گابا، برسبین میں دونوں "سبز پوش" مدمقابل آئے جہاں پاکستان نے باؤلنگ کے بہترین مظاہرے کے بعد جنوبی افریقہ کو صرف 211 رنز تک محدود کردیا۔

پاکستان صرف دو وکٹوں کے نقصان پر 74 رنز تک پہنچ گیا جب بارش نے جنوبی افریقہ کو مقابلے میں واپسی کا موقع دیا۔ جب مقابلے کا آغاز دوبارہ ہوا تو پاکستان کو صرف 36 اوورز میں 194 رنز کا ہدف ملا۔ یعنی بقیہ تقریباً 15 اوورز میں 120 رنز۔

جب انضمام الحق اور عمران خان نے بارش کے بعد ابتدائی 9 اوورز میں 61 رنز جوڑ ڈالے اور پاکستان کے امکانات کو زندہ رکھا۔ اب اسکور 135 رنز تک تھا اور اگر اسی طرح جاری رہتا تو آنے والے بلے باز بھی پاکستان کو جیت تک پہنچا سکتے تھے لیکن اس مرحلے پر ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا، جو آج بھی ان افراد کو اچھی طرح یاد ہوگا، جنہیں اسے براہ راست دیکھنے کا موقع ملا تھا۔

انضمام الحق نے برائن میک ملن کی ایک گیند کو لیگ سائیڈ کی جانب روانہ کرنے کے لیے بلّا گھمایا لیکن گیند ان کے پیڈ سے لگ کر پوائنٹ پر کھڑے 22 سالہ جونٹی رہوڈز کے پاس گئی۔ انضمام الحق اپنے ابتدائی دور ہی سے وکٹوں کے درمیان دوڑنے کے معاملے میں کمزور تھے، اس لیے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور لیگ-بائے کا رن لینے کے لیے دوڑ پڑے۔ عمران خان نے بھی ایک دو قدم بڑھائے لیکن اس کے بعد جونٹی رہوڈز کی پھرتی سے آمد کو دیکھتے ہوئے ٹھیر گئے۔ انضمام کو جب اندازہ ہوا کہ رن نہیں لینا تو وہ واپس پلٹے اور اگر کوئی اور فیلڈر ہوتا تو شاید بچ بھی جاتے لیکن جونٹی رہوڈز نے براہ راست وکٹیں اڑانے کا خطرہ مول نہیں لیا بلکہ بجلی کی سی تیزی سے وکٹوں کی جانب دوڑتے چلے آئے اور جب دیکھا کہ انضمام پہنچنے والے ہیں تو ہوا میں جست لگائی اور گیند سمت وکٹوں میں جا گھسے۔ تینوں وکٹیں زمین بوس تھیں اور امپائر کی انگلی بھی فضا میں بلند۔ انضمام جھکے ہوئے کاندھوں کے ساتھ میدان سے واپس آنے لگے اور میدان میں موجود تماشائیوں سے لے کر ٹیلی وژن پر دیکھنے والے کروڑوں شائقین تک سب حیران تھے کہ آخر یہ ہوا کیا؟ کئی بار ری پلے دیکھنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ یہ جونٹی کا 'جادو' تھا۔ وہ فضا میں اڑتے ہوئے انضمام کو رن آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے

جنوبی افریقہ نے کچھ ہی دیر بعد عمران خان کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کرلی۔ پاکستان کو آخری پانچ اوورز میں 58 رنز کی ضرورت تھی، جو بہت زیادہ تھے۔ پاکستان مقررہ 36 اوورز میں 173 رنز ہی بنا سکا اور یوں 20 رنز سے یہ مقابلہ بھی ہار گیا لیکن اس میچ نے دنیائے کرکٹ کو جونٹی رہوڈز کی پہلی جھلک دکھائی۔ ایک ایسا کھلاڑی جس نے اپنی بیٹنگ یا باؤلنگ کے ذریعے نہیں بلکہ فیلڈنگ کے ذریعے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ دور جدید میں فیلڈنگ کے بڑھتے ہوئے کردار اور معیار میں بنیادی حصہ جونٹی کا ہے جنہوں نے اس زمانے میں وہ فیلڈنگ کی، جو آج بھی ہمیں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔